سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) کھیرے جانور کی قربانی

  • 21421
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2406

سوال

(81) کھیرے جانور کی قربانی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک سال کا بکری کا بچہ قربانی کے لیے جائز ہے؟ سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بکریاں دیں قربانی کی انہوں نے بانٹ دیں اپنے ساتھیوں کو۔ ایک عتودہ رہ گیا (یعنی ایک سال کا بکری کا بچہ) انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اسی کی قربانی کر ہلال سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جائز ہے۔ مہربانی کر کے اس حدیث کی رو سے وضاحت کریں کہ قربانی کے لیے ایک سال کا بکری کا بچہ جائز ہے یا نہیں۔ (عبدالستار انصاری کریانہ سٹور والے چک نمبر 109 روڑا تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کے جانور کے لیے جو شرائط شریعت مطہرہ نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ قربانی والا جانور دو دانتا ہو اور اگر یہ ملنا مشکل ہو یا اس کے خریدنے کی ہمت نہ ہو تو بھیڑ کا کھیرا قربان کرنا جائز و درست ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن)

تم دو دانتے کے سوا ذبح نہ کرو، الا یہ کہ تمہارے اوپر عسرت و تنگی ہو تو بھیڑ کا کھیرا ذبح کر لو۔

یہ حدیث صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب سن الاضحیہ 13/1963 ابوداؤد (2797) ابن ماجہ (3141) نسائی (4390) صحیح ابن خزیمہ (2918) مسند ابی یعلی (2323'2324) بیہقی 9/269 مسند احمد 3/312'327۔ط قدیم 22/251 (14348) ط جدید۔ مسند ابی عوانہ 5/228 المنتقی لابن الجارود (904)

بعض لوگ دو دانتے کی جگہ پر مطلقا بھیڑ کے کھیرے کی قربانی درست قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ کلیب بیان کرتے ہیں

(كنـا في سفر فحضر الأضحى فجعل الرجل منـا يشتري المسنة بالجذعتين والثلاثـة ، فقال لنـا رجل من مزينـة : كنـا مع رسـول الله عليه الصلاة والسلام في سفر فحضر هـذا اليوم فجعل الرجـل يطلب المسنـة بالجذعتين والثلاثة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ((إن الجذع يوفى مما يوفى منه الثنى)))

ہم سفر میں تھے کہ قربانی والی عید کا وقت آ گیا۔ ہم میں سے ہر کوئی دو یا تین کھیروں کے بدلے دو دانتا خریدنے لگا۔ مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے ہم سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے یہ دن آ گیا تو ہر شخص دو یا تین کھیروں کے بدلے دو دانتا طلب کرنے لگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ کھیرا اس کام پر پورا پورا اترتا ہے جس کام میں دو دانتا پورا ہے۔

یہ روایت سنن النسائی (4395'4396) مسند احمد 3/204۔ المستدرک للحاکم 4/326۔ بیہقی 9/271۔ ابن ابی شیبہ 14/210 میں موجود ہے۔ لیکن اسی روایت کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن (2799) میں اور ابن ماجہ (3140) طبرانی کبیر (20/7641) المستدرک للحاکم 4۔226۔ بیہقی 9/270'271

اور مزی نے تہذیب الکمال میں مجاشع بن مسعود کے ترجمہ میں سفیان ثوری از عاصم بن کلیب از ابیہ کی سند سے ذکر کیا ہے۔ اس میں ہے

" كنا مع رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له مجاشع من بنى سليم فقدت الغنم فأمر مناديا فتاوى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إن الجذع يوفى مما توفى منه الثنية "

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی کے ساتھ تھے جسے مجاشع کہا جاتا تھا۔ وہ بنو سلیم میں سے تھا۔ بکریاں کم پڑ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کرنے والے کو حکم دیا۔ اس نے منادی کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں بلاشبہ بھیڑ کا کھیرا اس چیز سے پورا پورا کفایت کرتا ہے جس سے دو دانتا پورا پورا کام آتا ہے۔ اس حدیث نے اس بات کی توضیح کر دی کہ یہ حکم دو دانتا جانور کم ہونے کی صورت میں تھا۔ اس میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کوئی تعارض نہیں۔ وہ بھی عسرت و تنگی اور دو دانتے کی قلت کی صورت میں بھیڑ کا کھیرا قربانی کرنے پر دلالت کرتی ہے اور اس روایت کا سیاق بھی اسی بات پر دال ہے۔

اسی طرح ابوکباش کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے سوال کیا۔ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے

" نعم او نعمت الأضحية الجذع من الضان "

بہترین قربانی بھیڑ کا کھیرا ہے۔

(مسند احمد 15/461 مسند اسحاق بن راھویہ (407) بیہقی 9/271۔ ترمذی 1499)

اس کی سند کدام بن عبدالرحمٰن السلمی اور ابوکباش کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ بھی مروی ہے کہ

" الجذع من الضان خير من السيد من المعز "

بھیڑ کا کھیرا بکری کے دو دانتے سے بہتر ہے

(مسند احمد 15/124۔ المستدرک 4/227)

اس کی سند میں ابو ثفال المتری ثمامہ بن وائل ضعیف ہے۔

ایک اور روایت مسند بزار (1207) بیہقی 9/271۔ المستدرک 4/222،223 میں اسحاق بن ابراہیم الحنینی از ہشام بن سعد از زید بن اسلم از عطاء بن یسار از ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے اور اس میں ایک قصہ بھی مذکور ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اس کی سند میں اسحاق "ھالک" ہے اور ہشام قابل اعتماد نہیں ہے۔ علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد 4/19 میں ذکر کر کے فرمایا ہے: اسے بزار نے روایت کیا ہے اس میں اسحاق الحنینی ضعیف راوی ہے۔

مستدرک حاکم میں قزعہ بن سوید حدثنی الحجاج بن الحجاج عن سلمۃ بن جنادہ عن حنش بن الحارث حدثنی ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی اس روایت کو لاتے ہیں

(المستدرک: 4/227)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں قزعہ سوید ضعیف ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں یہ حنش العبدی کی روایت ہے مجھے اس کا ترجمہ نہیں ملا (مجمع الزوائد 4/20)

اور اسی مسئلہ کے متعلق ایک روایت وہ ہے جو سوال میں ھلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

" يجوز الجذع من الضأن اضحية "

بھیڑ کا کھیرا قربانی کے لیے جائز ہے

(ابن ماجہ 3139۔ مسند احمد 6/368ط قدیم۔ بیہقی 9/271 شرح مشکل الآثار 5723)

یہ روایت بھی ضعیف ہے اس کی سند میں ام محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی مجہولہ ہے اور ام بلال بنت ھلال بھی اس روایت کے سوا کہیں معروفہ نہیں۔

اب رہی عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ سنن ابن ماجہ 3138۔ صحیح البخاری، کتاب الاضاحی 5555۔ صحیح مسلم 16/1965۔ مسند طیالسی 1002۔ مسند احمد 28/538۔ سنن النسائی 7/218۔ ابن حبان 5898۔ ابی کبیر 17/761۔ بیہقی 9/269-270۔ شرح السنۃ 1116۔ مسند ابو عوانہ 5/211، 212۔ مسند ابی یعلی 758۔ صحیح ابن خزیمہ 2916 وغیرھا میں موجود ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں انہوں نے اپنے ساتھیوں پر تقسیم کیں تو بکری کا ایک سالہ بچہ باقی رہ گیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ضح به انت " تو اس کی قربانی کرے۔ یہ حدیث عام نہیں ہے کہ ہر کسی کو اجازت ہو کہ وہ بکری کا ایک سالہ بچہ ذبح کر لے بلکہ یہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے۔ اس کی تخصیص کی دلیل یہ ہے کہ امام بیہقی نے السنن الکبری 9/270 میں بطریق ابی عبداللہ البوشنجی ثنا یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر ثنا اللیث بن سعد عن یزید بن ابی حبیب عن ابی الخیر مرتد بن عبداللہ البزنی عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ یہ الفاظ بیان کیے ہیں

" ضح بها انت ولا ارخصه لأحد فيها بعد "

تو اسے قربان کر دے اس میں کسی اور کے لیے میں رخصت نہیں دیتا۔

یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص معاملہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے ابو بردہ رضی اللہ عنہ کو رخصت دی تھی دیکھیں صحیح البخاری (5556'5557) وغیرہ۔

امام بیہقی نے السنن الکبری 9/269 میں یوں باب قائم کیا ہے

" باب لا يجزى الجزع إلا من الضان وحدها ويجزى الثنى من المغز والابل والبقر "

کھیرا صرف بھیڑ کا ہی کفایت کرتا ہے اور بکری، اونٹ اور گائے میں سے دو دانتا کفایت کرتا ہے۔

لہذا بکری کا کھیرا (ایک سالہ) صرف چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے خاص تھا۔ جن میں سے عقبہ بن عامر، ابو بردہ رضی اللہ عنہما ہیں۔ اور زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ کو بھی آپ نے بکری کا کھیرا قربانی کرنے کے لیے دیا تھا جیسا کہ مسند احمد 36/20، ابن حبان 5899، ابوداؤد 2798، مسند بزار 3776، طبرانی کبیر 5/242'243، بیہقی 9/270 میں موجود ہے۔ یہ معاملات ابتدائی معلوم ہوتے ہیں بعد میں شروع میں اس بات کا تقرر ہو گیا کہ بکری کا کھیرا قربانی کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں

" وفى الحديث ان الجذع من المعز لا يجزى وهو قول الجمهور " (فتح الباری 10/15)

اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بکری کا کھیرا قربانی کے لیے کفایت نہیں کرتا اور یہ ہی جمہور علماء کا قول ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاضحیہ-صفحہ412

محدث فتویٰ

تبصرے