سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) عقیقہ مسنون ہے

  • 21419
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1507

سوال

(79) عقیقہ مسنون ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ دور جاہلیت کی رسم ہے اور اس کی ادائیگی نہیں کرنی چاہیے؟ (ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہماری دینی، دنیوی ہر طرح کی راہنمائی کرتا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں جب بھی کوئی بچہ جنم لیتا ہے تو اسلام نے اس کے متعلق بھی کئی احکامات جاری کئے ہیں جن میں سے ایک اہم مسئلہ عقیقہ کا بھی ہے۔ عقیقے کی مشروعیت پر کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ دلالت کرتی ہیں۔

1۔ سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

(مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما ، وأميطوا عنه الأذى)

(صحیح البخاری، کتاب العقیقۃ، باب اماطۃ الاذی عن الصبی فی العقیقۃ (5472) مسند احمد 4/18'214'215 بیہقی 9/298'299 کتاب الاضاحی (1515) ابوداؤد (2839) ابن ماجہ (3164) ابن خزیمہ (2067) مسند حمیدی (823) دارمی 2/81)

"ہر لڑکے ساتھ عقیقہ ہے پس اس کی طرف سے خون بہاؤ یعنی عقیقہ کرو اور اس سے گندگی دور کرو۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا عقیقہ کرنا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور گندگی دور کرنے کا مطلب اس کا سر منڈایا جائے ابوداؤد اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں گندگی دور کرنے سے اگر سر منڈانا مراد نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے؟

2۔ سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" كُلّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ "

(ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ (2837) ترمذی، کتاب الاضاحی، باب من العقیقۃ (1522) (بخاری 5472) نسائی، کتاب العقیقۃ، باب متی یعق (4231) ابن ماجہ، کتاب الذبائح (3165) مسند احمد 5/7'12'17'22) دارمی 2/81)

ہر لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور اس کا سر منڈایا جائے۔

گروی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے تو وہ قیامت والے دن سفارش نہیں کرے گا۔ (تحفۃ الاحوذی 5/97 مطبوعہ بیروت)

3۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرهم عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية بشاة "

(ترمذی، کتاب الضحایا (1513) ابن ماجہ، کتاب الذبائح (3163) مسند احمد 6/31'82'158)

یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر ایک جیسی ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔

4۔ ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:

" عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية بشاة "

(ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ (2834) نسائی، کتاب العقیقۃ، باب العقیقۃ عن الجاریۃ (4227) ترمذی، کتاب الاضاحی (1514) ابن ماجہ (3162) ابن حبان (1060) دارمی 2/81 مسند حمیدی (345) مسند احمد 6/422)

لڑکے کی طرف سے دو برابر بکریاں ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

"«عن الغلام شاتان ، وعن الأنثى واحدة ، لا يضركم ذكراناً أم إناثاً»"

لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک ایک بکری اور تمہیں کچھ نقصان نہیں ہو گا۔ نر ذبح کرو یا مادہ۔

5۔ ابو بریدۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" كنا في الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسـه بدمهـا ، فلما جاء الله بالإسـلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران "

(ابوداؤد، کتاب الضحایا (2843) بیہقی 9/302'303 تمھید 4/319)

"زمانہ جاہلیت میں جب ہمارے ہاں کسی کے گھر لڑکا پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کا سر رنگتا جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت دی تو ہم بکری ذبح کرتے اور اس کا سر مونڈتے اور اسے زعفران مل دیتے۔"

6۔ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" ان اليهود تعق عن الغلام كبشا ولا تعق عن الجارية فعقوا واذبحوا عن الغلام كبشين عن الجارية كبشا "

(بیہقی 9/302 مسند بزار (کشف الاستار 1233)

"بےشک یہودی لڑکے کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح کرتے اور لڑکی کا عقیقہ نہیں کرتے تھے۔ تم عقیقہ کرو اور لڑکے کی طرف سے دو مینڈھے اور لڑکی کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح کرو۔"

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں اس کی سند میں ابو حفص الشاعر اور اس کے باپ کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ (مجمع الزوائد 3/58)

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ کے متعلق ایک صحیح حدیث بھی مروی ہے جس کے راویوں کو علامہ ہیثمی نے صحیح کے راوی قرار دیا ہے۔

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما ، وأميطوا عنه الأذى "

(مسند بزار 1236 کشف الاستار)

"ہر لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے اذیت دور کرو۔"

7۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے فرمایا: اللہ عقوق پسند نہیں کرتا گویا کہ آپ نے یہ نام ناپسند کیا اور فرمایا:

" من ولد له ولد فاحب ان ينسك عنه فلينسك عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة .... الحديث "

(ابوداؤد، کتاب الضحایا (2842) نسائی، کتاب العقیقۃ (4223) بیہقی 9/300)

"جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کی طرف سے پسند کرے تو قربانی کرے لڑکے کی طرف سے دو برابر عمر کی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔"

امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" لا يحب الله العقوق "

"اللہ عقوق پسند نہیں کرتا۔"

حدیث کے اس جملہ میں عقیقہ کی توہین نہیں ہے اور نہ ہی اس کے وجوب کو گرانا صرف آپ نے نام کو ناپسند کیا ہے اور یہ پسند کیا ہے کہ اس کا اس سے کوئی بہتر نام ہو جیسے "نسیکہ" یا "ذبیحہ"

8۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" ان النبى صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد ما بعث نبيا "

(مسند بزار (1237 کشف الاستار) عبدالرزاق (7960) طبرانی اوسط 1/529 (998)

"بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی مبعوث ہونے کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا۔"

مسند بزار کی سند میں عبداللہ بن المحرر ہے جس کے بارے میں امام بزار فرماتے ہیں: یہ انتہائی کمزور ہے اس کی وہ روایت لکھی جاتی ہے جو اس کے علاوہ کسی کے پاس نہ پائی جائے۔

مجمع الزوائد 4/59 میں علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: اسے امام بزار اور امام طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے اور طبرانی کے راوی صحیح کے راوی ہیں ہیثم بن جمیل کے علاوہ اور وہ ثقہ ہے اور طبرانی کے شیخ احمد بن مسعود الخیاط المقدسی کا ترجمہ میزان میں نہیں ہے۔

مجمع الزوائد کے محقق علامہ عبداللہ محمد الدرویش فرماتے ہیں: احمد بن مسعود کا ترجمہ مختصر طور پر ابن عساکر کی تاریخ دمشق 2/89 میں موجود ہے۔

دیکھیں: (سیر اعلام النبلاء 13/244) (بغیہ الرائد فی تحقیق مجمع الزوائد 4/94)

علامہ ذہبی نے اسے المحدث الامام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس نے عمرو بن ابی مسلمہ التنیسی، الہیثم بن جمیل الانطاکی اور کئی راویوں سے روایت بیان کی ہے اور اس سے ابو عوانہ الاسفرائینی اور ابو القاسم الطبرانی اور دیگر لوگوں نے روایت لی ہے امام طبرانی نے اس سے بیت المقدس میں ملاقات کی ہے۔ واللہ اعلم

(تھذیب سیر الاعلام النبلاء 1/522)

9۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن والحسين كبشا "

(ابوداؤد، کتاب الضحایا (2841) المنتقی لابن الجارود (911'912) النسائی (4230) عبدالرزاق 4/330 مشکل الآثار 1/457 طبرانی کبیر (11838'11856) جلد نمبر 11 بیہقی 2/299'302 حلیۃ الاولیاء 7/116 اخبار اصھبان 2/151 تاریخ بغداد 10/151

"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا۔"

نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کئے۔

علامہ البانی نے اسے صحیح سنن النسائی 3/885 (3935) اور ارواء الغلیل 4/379 میں صحیح قرار دیا ہے

10۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن والحسين بكبشين " بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو مینڈھے عقیقہ کئے۔

(مجمع الزوائد (6188) البزار (1235 کشف) مسند ابی یعلی (2945) 5/324 بیہقی 9/299 المطالب العالیہ (2261) ابن حبان (1061 موارد) طبرانی اوسط (1899) ارواء الغلیل 4/381) اس کی سند میں قتادہ مدلس ہیں۔

11۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن والحسين "

(مسند ابی یعلی (1933) المطالب العالیہ (2260) مجمع الزوائد (6187)

"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ کیا۔"

علامہ ھیثمی فرماتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن اس کی سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں۔

12۔ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" العقيقة حق على الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة "

(مجمع الزوائد 6186 مسند احمد 6/456 طبرانی کبیر 24/183۔) علامہ ھیثمی فرماتے ہیں اس کے راوی قابل حجت ہیں۔

"عقیقہ حق ہے لڑکے کی طرف سے دو مساوی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔"

مندرجہ بالا احادیث صحیحہ و حسنہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بچے کی ولادت پر عقیقہ کرنا اسلامی احکامات میں سے ہے اور اس کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ عقیقے کی مشروعیت پر ائمہ محدثین رحمھم اللہ کا اتفاق ہے صرف اس کے مسنون یا واجب ہونے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔

لہذا بعض جدید مفکرین اور نام نہاد دانشوروں نے جو اس کی مشروعیت کا انکار کیا ہے یہ اسلامی احکامات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے یا پھر تجاہل عارفانہ ہے۔ بہرکیف احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مشروعیت پر بالکل واضح ہیں اور اسی پر امت مسلمہ کا مسلسل عمل چلا آ رہا ہے۔

تنبیہ: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے کے متعلق آپ نے مذکورہ روایات میں ملاحظہ کیا ہے کہ بعض میں ہر ایک کی طرف سے ایک مینڈھا اور بعض میں دو مینڈھوں کا ذکر ہوا ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں: کہ دو مینڈھوں والی بات قابل اخذ و اعتماد ہے اس کی دو وجہیں ہیں۔ (1) دو مینڈھوں والی زیادت ثقہ راویوں نے بیان کی ہے اور زیادت ثقہ مقبول ہے خصوصا جب وہ ایسے طرق سے آئے جن کے مخارج مختلف ہوں (یعنی کئی صحابہ سے مروی ہو)

2۔ یہ اس مسئلہ میں مروی قولی احادیث کے موافق ہے جو لڑکے کی طرف سے دو بکریوں کو واجب کرتی ہیں۔ (ارواء الغلیل 4/384)

عائشہ، ام کرز رضی اللہ عنھن کی قولی احادیث تو اوپر ذکر ہو چکی ہیں، اس سلسلے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک قولی حدیث موجود ہے جسے امام طحاوی 1/485 امام بزار اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" للغلام عقيقتان وللجارية عقيقة " لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک عقیقہ ہے۔

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: اس کی سند میں عمران بن عیینہ میں کمزوری ہے اسے ابن معین اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے علامہ البانی فرماتے ہیں۔ اس کی سند شواہد میں جید ہے اور طحاوی کی سند عمران بن عینہ سے محفوظ و سالم ہے۔ (ارواء الغلیل 4/392)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ عقیقے کے متعلق یہ روایات بیان کر کے فرماتے ہیں:

یہ احادیث جمہور کے مذہب کی دلیل ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کے عقیقے میں فرق ہے۔ امام مالک سے روایت ہے کہ اس میں لڑکا اور لڑکی برابر ہیں ہر ایک کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کی جائے۔ انہوں نے ابوداؤد کی اس حدیث سے حجت لی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح کیا۔ یہ دلیل قابل حجت نہیں ہے اس لئے کہ ابو الشیخ نے ایک دوسری سند از عکرمہ از ابن عباس ذکر کی ہے جس میں الفاظ " كبشين كبشين " ہیں۔ یعنی دو دو مینڈھے عقیقے میں ذبح کیے اسی طرح عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے بھی اس نے روایت کی ہے۔

ابوداؤد کی روایت کا ثبوت فرض کر لیا جائے تو پھر بھی اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کے ساتھ ان متواتر حدیثوں کو رد کیا جائے جو لڑکے کے لئے دو بکریوں پر منصوص ہیں۔ بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ایک بکری کا عقیقہ جائز ہے۔ اور یہ بھی اسی طرح ہے اس لئے کہ تعداد شرط نہیں بلکہ مستحب ہے۔ (فتح الباری 9/592)

مولانا عبدالحئی لکھنوی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ "لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے ذبح کرنے چاہیے تاہم استطاعت اور قدرت نہ ہونے کی صورت میں ایک پر بھی اکتفاء درست ہے" (فتاویٰ عبدالحئی ص 398)

بہرکیف عقیقہ ایک اسلامی شعار ہے جس کی مشروعیت پر احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں اس کا انکار کسی طرح بھی درست نہیں یہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا جسے اسلام نے بھی جاری رکھا ہے اور جاہلیت میں جو بکرے کے خون کے ساتھ بچے کا سر رنگتے تھے اسلام میں بچے کا سر منڈانے کے بعد اس پر زعفران لگاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ امام ابن قیم ابن منذر سے نقل کرتے ہیں کہ "عقیقے کی سنت کا اہل رائے نے انکار کیا ہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث اور صحابہ و تابعین رحمھم اللہ اجمعین کے آثار کی مخالفت کی ہے۔ (تحفۃ المودود ص 27)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاضحیہ-صفحہ401

محدث فتویٰ

تبصرے