سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) مسئلہ طلاق

  • 21418
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 804

سوال

(78) مسئلہ طلاق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد عرض ہے کہ میرے خاوند نے لڑائی جھگڑے کے دوران مجھے یک مشت ایک ہی سانس میں تین طلاقیں کہہ دی اور میں دو ماہ سے حاملہ تھی۔ پریشانی کی وجہ سے میں بیمار ہو گئی اور ابارشن کروا دیا۔ طلاق کی مدت چار ماہ ہو گئی ہے۔ اب وہ یعنی کہ میرا خاوند صلح کرنا چاہتا ہے اور میرا ابھی اردہ ہے۔

ہم دو بہنوں کی ایک ہی گھر میں شادی ہوئی ہے۔ میری بہن بھی میرے ساتھ آئی ہوئی ہے میرے گھر والے اس کی بھی بات ختم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس کا خاوند اچھا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بہن کا گھر نہ اجڑے۔ ہمیں اچھا مشورہ دیجیے تاکہ چار زندگیاں برباد ہونے سے بچ جائیں میں جوابی لفافہ بھیج رہی ہوں۔ (والسلام، فقط: ایک مسلمان بہن)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ کی رو سے مجلس واحد کی متعدد یکجائی طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہوتی ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

" كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و ابى بكر و سنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة ... الحديث "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی تھی۔

یہ حدیث صحیح مسلم، المستدرک علی الصحیحین للحاکم، السنن الکبری للبیہقی، المصنف لعبد الرزاق، فتح الباری شرح صحیح البخاری اور اغاثۃ اللھفان وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے۔

جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک طلاق ہی شرعی طور پر شمار ہو گی لہذا عدت کے دوران تو نیا نکاح کئے بغیر رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عدت ختم ہو جانے کے بعد رجوع کے لئے نئے سرے سے نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔ سائلہ بوقت طلاق حاملہ تھی اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ...﴿٤﴾... سورةالطلاق

"حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے"

صورت مسئولہ میں دو ماہ کا حمل ضائع ہو گیا، ابارشن کروا دیا گیا ہے۔ شوہر کا غصہ اس معصوم جان پر نکالا گیا جو ابھی تخلیق کے مراحل میں تھی۔ یہ صریحا قتل ناحق ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ گھر بسانے کی فکر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی مانگنی چاہیے اور جتنی معافی مانگی جائے وہ کم ہے۔ اب عدت گزر چکی ہے اور نکاح جدید ہو گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورةالبقرة

"اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو تم انہیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ باہم اچھے طریقہ سے راضی ہوں"۔

معلوم ہوا کہ طلاق کے بعد عدت گزر جانے پر عقد ثانی ہو گا لہذا سائلہ کو ایک طلاق رجعی پڑ چکی ہے جس کی عدت بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب اگر اس شوہر کے ساتھ دوبارہ رہنا چاہتی ہے تو نیا نکاح کر کے اپنے گھر کو آباد کر سکتی ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ396

محدث فتویٰ

تبصرے