اگر خاوند اور بیوی میں کسی جھگڑے کی وجہ سے جدائی ہو جاتی ہے تو اس صورت میں اولاد باپ کے پاس رہے گی یا ماں کے پاس کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔(ابو عبداللہ۔ لاہور)
مذکورہ بالا صورت کی تقسیم کے لیے درج ذیل احادیث صحیحہ و حسنہ پر غور کیا جائے۔
(1)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے جب صلح کا معاہدہ کیا اور اس کے نتیجے میں آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لے گئے اور تین دن کی مدت پوری ہو گئی۔ تو مکہ والے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب عمرۃ القضاء (4251) سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب من احق بالولد (2278) مسند احمد 2/249 (931) 2/160'161 (770) مستدرک حاکم 3/120 مسند بزار (744 کشف) ابن حبان (7046) ابن ابی شیبہ 12/105 بیہقی 8/6)
"اپنے ساتھی سے کہو اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مدت پوری ہو چکی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتے ہوئے آئی علی رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے آئے اور کہا اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے اٹھا لایا ہوں۔ اس بچی کے بارے علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنھم کا اختلاف ہوا علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے اسے پکڑا ہے یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ اور جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے۔ اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا: خالہ ماں کے درجہ میں ہوتی ہے اور علی رضی اللہ عنہ سے کہا تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں۔"
جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم شکل و صورت اور عادات و اخلاق میں مجھ سے مشابہہ ہو۔ اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم ہمارے بھائی اور مولی ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا: کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔
(2) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب من احق بالولد (2276) بیہقی 8/4 مستدرک حاکم 2/207 مسند احمد 11/310'311 (6707) عبدالرزاق (12097) سنن الدارقطنی (3766'3767'3768)
"بلاشبہ ایک عورت نے کہا اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے تھیلا تھا اور میرے دونوں پستان اس کے مشکیزہ تھے اور میری گود اس کو سمیٹے رہی اور اب اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور مجھ سے وہ اسے چھیننا چاہتا ہے۔"
اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے۔
(3) ابو میمونہ کہتے ہیں میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا دونوں (میاں بیوی) نے اس کا دعویٰ کیا اور شوہر بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔ اس عورت نے کہا: اے ابوہریرۃ۔ عورت نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فارسی میں گفتگو کی۔ میرا شوہر میرا بیٹا لے جانا چاہتا ہے۔
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے اس سے فارسی میں بات کرتے ہوئے کہا تم دونوں اس پر قرعہ اندازی کر لو اس عورت کا شوہر آیا تو اس نے کہا: میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے میرے اللہ میں یہ فیصلہ اس لیے دے رہا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا آپ کے پاس ایک عورت آئی اس نے کہا میرا شوہر مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ مجھے ابو عتبہ کے کنویں سے پانی پلاتا ہے اور اس نے مجھے نفع پہنچایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم دونوں اس پر قرعہ اندازی کرو۔ تو اس کے شوہر نے کہا میرے بچے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کرتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے۔"
ان دونوں میں سے جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو تو اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا وہ اسے لے کر چلے گئی۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب من احق بالولد (2277) وللفظ لہ جامع الترمذی، کتاب الاحکام، باب ما جاء فی تخییر الکلام بین ابویہ اذا افترقا (1375) سنن ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب تخییر الصبی بین ابویہ (2351) کتاب الام 5/92 مسند شافعی 2/62 سنن سعید بن منصور (2270) مسند حمیدی (1083) سنن الدارمی (2298) سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب اسلام احد الزوجین (3496) شرح مشکل الآثار (3080) مسند ابو یعلی (6131) بیہقی 8/3 مسند احمد 15/480 (9771) ابن ابی شیبہ 5/237)
(4) رافع بن سنان سے مروی ہے کہ:
(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب اذا اسلم احد الابوین مع من یکون الولد (2244) سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب اسلام احد الزوجین و تخییر الولد (3495) سنن ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب تخییر الصبی بین ابویہ (2352) مستدرک حاکم 2/206'207 بیہقی 8/3 مسند احمد 39/168 (23757) السنن الکبری للنسائی (6385) شرح مشکل الآثار) اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ البانی نے بھی اسے صحیح ابی داؤد میں ذکر کیا ہے۔
"رافع اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام لانے سے انکارکر دیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگی۔ میری بیٹی دودھ چھوڑنے والی ہے۔ یا ا س کی مثل ہے اور رافع کہنے لگے میری بیٹی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع سے کہا ایک جانب بیٹھ جاؤ اور اس خاتون سے کہا تم بھی ایک جانب بیٹھ جاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو دونوں کے درمیان بٹھا دیا پھر فرمایا: تم دونوں اسے بلاؤ بچی جب ماں کی طرف مائل ہونے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے میرے اللہ اس بچی کو ہدایت دے تو وہ اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو رافع رضی اللہ عنہ نے اس بچی کو لے لیا۔"
ان احادیث صحیحہ و حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خاوند اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پڑ جائے تو بچے اگر چھوٹی عمر کے ہوں تو ماں ان کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ نکاح نہیں کرتی۔ اگر بچوں کی ماں موجود نہ ہو تو خالہ کو ماں کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے اور اگر بچے سن شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں والدین کے درمیان اختیار دیا جائے گا وہ جس کے پاس جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔
البتہ والدین میں سے کسی ایک کو بھی اولاد کے ساتھ ملاقات سے روکا نہیں جائے گا۔ کیونکہ صلہ رحمی واجب ہے۔ حضانت و پرورش میں بچے کی نگہداشت مقصود ہوتی ہے جس سے اس کی جسمانی و روحانی تربیت ہو اور جس کے ذریعے یہ اغراض و مقاصد حاصل نہ ہو سکتے ہوں تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا۔
جیسا کہ ماں اگر دوسری جگہ شادی کر لے تو اس کا حق حصانت ختم ہو جائے گا جیسا کہ آپ نے فرمایا " انت احق به مالم تنكحى " جب تک تو نکاح نہ کر لے اس کی زیادہ حق دار ہے۔ کیونکہ جب دوسرے شخص سے نکاح ہو جاتا ہے تو وہ صحیح طور پر پہلے خاوند کی اولاد کی نگہداشت نہیں کر سکتی۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اسی طرح عورت اگر مجنون ہو یا جذام و کوڑھ وغیرہ جیسے امراض میں مبتلا ہو۔ یا کافرہ ہو جس سے بچے کے دین و عقائد خراب ہونے کا خطرہ ہو تو اس صورت میں بھی عورت کا حق حصانت ختم ہو جائے گا۔ ملاحظہ ہو "اسلام طرز زندگی" ص 663 اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے حصول کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ میں بالتصریح موجود ہے۔ اسی طرح ایک صحیح مرسل روایت میں خلیفہ الرسول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی فیصلہ موجود ہے۔ قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی اہلیہ ام عاصم بنت عاصم انصاریہ سے بیٹے کے بارے جھگڑا ہو گیا عمر رضی اللہ عنہ نے ام عاصم سے جدائی اختیار کی۔
تو عمر رضی اللہ عنہ قباء تشریف لائے تو اپنے بیٹے عاصم کو مسجد کے صحن میں کھیلتے ہوئے پایا۔ تو اس کے بازو سے پکڑا اور سواری پر اپنے آگے بٹھا لیا تو بچے کی نانی نے انہیں آ لیا اور ان سے جھگڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ یہ فیصلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرا بیٹا ہے اور عورت نے کہا میرا بیٹا ہے تو ابوبکر نے فرمایا:
"اس عورت کی ہوا، بستر اور گود آپ کی نسبت بچے کے لیے زیادہ بہتر ہے یہاں تک کہ وہ بڑا ہو جائے اور اپنے نفس کا مختار بن جائے۔"
اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ماں زیادہ مشفق، لطیف، رحم کرنے والی، مائل ہونے والی اور نرم ہے یہ اپنے بچے کی زیادہ حق دار ہے جب تک شادی نہ کر لے۔"
(ماخوذ از مؤطا للمالک 2/767'768 بیہقی 8/5 عبدالرزاق (2601) 12098'12600) سنن سعید بن منصور (2272)
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: یہ خبر کئی اسانید منقطعہ و متصلہ سے مشہور ہے اسے اہل علم کے ہاں قبولیت عامہ حاصل ہے۔ (زاد المعاد 5/436)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے دور خلافت میں اس پر فتویٰ دیتے اور فیصلہ فرماتے رہے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مخالفت اس بات میں نہیں کی کہ جب تک بچہ چھوٹا ہو اور سن تمیز تک نہ پہنچا ہو تو وہ ماں کے پاس رہے گا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے بھی ان دونوں کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ (زاد المعاد 5/436)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب