سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(76) والدین سے جھگڑے کی صورت میں نابالغہ بچی کے خرچے کا حکم

  • 21416
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1421

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر والدین میں کسی وجہ سے تنازع طول پکڑ جائے اور علیحدگی ہو جائے اور ان دونوں میں سے ایک نابالغہ بچی ہے اس کا خرچہ عدالت نے مقرر کیا ہے اور والد آسانی سے وہ ادا کر سکتا ہے مگر ضد کی وجہ سے گریزاں ہے۔ تو کای عدالت والد کے اس رویہ کی وجہ سے نابالغہ بچی سے اس کے والد کو نہ ملنے کے احکامات دے سکتی ہے نیز عدالت والد کو خرچہ دینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ جبکہ والد نے عدالت سے خرچہ مقرر ہونے کے بعد اپنی جائیداد ادھر ادھر کر دی ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری صحیح راہنمائی فرمائیں۔ (محمد احمد۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ صورت اگر صحیح رقم کی گئی ہے تو اس میں نابالغہ بچی کا خرچ والد پر واجب ہے اور والد شرعی طور پر پابند ہے کہ وہ اپنی بچی کا نان و نفقہ ادا کرے بچی خواہ والد کے پاس ہو یا والدہ کے پاس سید الفقہاء امام المحدثین امام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں کتاب النفقات میں یوں تبویب منعقد کی ہے " باب وجوب النفقة على الأهل والعيال " کہ مرد پر بیوی بچوں کا خرچ دینا واجب ہے۔ پھر اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : ( أفضل الصدقة ما ترك غنى واليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول تقول المرأة إما أن تطعمني وإما أن تطلقني ويقول العبد أطعمني واستعملني ويقول الابن أطعمني إلى من تدعني"

(صحیح البخاری، کتاب النفقات، باب وجوب النفقۃ علی الاھل والعیال: 5355)

"ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جسے ادا کرنے کے بعد دینے والا مالدار ہی رہے اور دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور سب سے پہلے اپنے زیر کفالت افرادپر خرچ کرو بیوی کہتی ہے مجھے کھلاؤ یا طلاق دو اور غلام کہتا ہے مجھے کھلاؤ اور کام پر لگاؤ بیٹا کہتا ہے مجھے کھلاؤ۔ مجھے کس کے سپرد کرتے ہو؟"

(2) اسی طرح ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى وابدأ بمن تعول "

(صحیح البخاری، کتاب النفقات، باب وجوب النفقۃ علی الاھل والعیال (5356) سنن النسائی، کتاب الزکاۃ، باب ای الصدقۃ افضل (2543) مسند احمد 12/301 (7348)، 6912 (7155) صحیح ابن حبان (4243) بیہقی 4/177 کتاب العیال (7) لابن ابی الدنیا حلیۃ الاولیاء 2/181 تاریخ بغداد 8/481-482)

"بہترین صدقہ وہ ہے جس کے ادا کرنے کے بعد آدمی مالدار رہے اور سب سے پہلے اپنے زیر کفالت افراد پر خرچ کرو۔"

(3) القعقاع بن حکیم کہتے ہیں: عبدالعزیز بن مروان نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ:

""إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إن اليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول" ولست أسألك شيئا ولا أرد رزقا رزقنيه الله منك "

"بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور جو لوگ تیرے زیر کفالت ہیں ان پر پہلے خرچ کر۔ میں تجھ سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا اور جو رزق مجھے اللہ نے تجھ سے دیا اسے میں رد نہیں کروں گا۔"

(مسند احمد 8/50 (4474)، 10/456 (6302) طبقات ابن سعد 4/150 مسند ابی یعلی (5730) الجامع الصغیر (10027)

(4) حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

" اليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول و خير الصدقة عن ظهر غنى ومن يستعف يعفه الله ومن يستعن يغنه الله "

(صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ، باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنی (1427) صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی 95/1034، مسند احمد 24/42 (15326) ابن ابی شیبہ 3/211 مسند الشھاب للقضاعی (1228'1229) بیہقی 4/177) سنن النسائی، کتاب الزکاۃ، باب ای الصدقۃ افضل (2542)

"دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور جو تیری زیر کفالت افراد ہیں ان پر پہلے خرچ کرو اور بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی مالدار رہے۔ اور جو شخص پاکدامنی چاہے گا اللہ اسے پاکدامنی عطا کرے گا اور جو غنا چاہے گا اللہ اسے غنا دے گا۔"

(5) جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مسند احمد 22/403 (14031) صحیح ابن حبان (3345) وغیرھما میں موجود ہے۔

(6) ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" يا ابن آدم! إنك أن تبذل الفضل خير لك، وأن تمسكه شر لك، ولا تلام على كفاف، وابدأ بمن تعول، واليد العليا خير من اليد السفلى "

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی 97/1036، مسند احمد 36/599 (22265) طبرانی کبیر (7625) جامع الترمذی (2343) بیہقی 4/182 اتحاف الھمرۃ 6/229)

"اے آدم کے بیٹے! بےشک تیرا زائد مال کو خرچ کرنا تیرے لیے بہتر ہے اور اسے روک کر رکھنا تیرے لیے برا ہے اور بقدر ضرورت پر تو ملامت نہیں کیا جائے گا۔ اور جو افراد تیرے زیر کفالت ہیں ان پر پہلے خرچ کر۔ اور دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔"

(7) طارق المحاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:

" يد المعطي العليا وابدأ بمن تعول أمك وأباك وأختك وأخاك ثم أدناك أدناك "

(سنن النسائی، کتاب الزکاۃ (2531) صحیح ابن حبان (3330) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ ارواء الغلیل 3/319)

"دینے والا ہاتھ اونچا ہے اور جو تیری زیر کفالت افراد ہیں ان پر پہلے خرچ کر پہلے اپنی ماں اور باپ کو اور بہن کو اور بھائی کو پھر جو ان سے نزدیک ہوں پھر جو ان سے نزدیک ہوں۔"

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان پر اس کے زیر کفالت افراد کا خرچ واجب ہے یہ بھی یاد رہے کہ والد پر اولاد کا نان و نفقہ اس وقت تک واجب ہے جب لڑکا بالغ نہ ہو جائے اور لڑکی کا نکاح نہ کر دیا جائے۔

لڑکے کی بلوغت اور لڑکی کے نکاح کے بعد ان کا نفقہ والد کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے بشرطیکہ لڑکا کمانے پر قادر ہو معذور نہ ہو حافظ الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

" ذهب الجمهور إلى أن الواجب أن ينفق عليهم حتى يبلغ الذكر أو تتزوج الأنثى ثم لا نفقة على الأب إلا إن كانوا زمنى، فإن كانت لهم أموال فلا وجوب على الأب‏ وألحق الشافعي ولد الولد وإن سفل بالولد في ذلك " (فتح الباری 9/500'501)

"جمہور ائمہ محدثین رحمھم اللہ اجمعین اس طرف گئے ہیں کہ باپ پر اولاد کا نفقہ واجب ہے یہاں تک کہ لڑکا بالغ ہو جائے اور لڑکی کی شادی ہو جائے اس کے بعد والد پر کوئی نفقہ نہیں اِلا یہ کہ اولاد لنگڑی لولی اور معذور ہو پس اگر اولاد صاحب مال ہو تو پھر باپ پر نفقہ واجب نہیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے پوتوں، پڑپوتوں کو بھی نیچے تک اس حکم میں اولاد کے ساتھ ملحق کیا ہے۔"

لہذا باپ پر اس نابالغہ بچی کا خرچہ واجب ہے اور باپ شرعی طور پر اس حق کی ادائیگی کا پابند ہے بصورت دیگر سخت گناہ گار ہو گا۔ لیکن اس خرچہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ باپ کو اس بچی سے ملنے پر کسی قسم کا حکم امتناعی جاری کر سکے کیونکہ جس طرح نابالغہ بچی کا نفقہ شرعا باپ پر واجب ہے اسی طرح باپ کو اپنی بچی سے میل ملاقات کا بھی شرعا حق حاصل ہے اور اس کے اس شرعی حق کو عدالت سلب نہیں کر سکتی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا ہے۔

﴿ لا تُضارَّ و‌ٰلِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَولودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

"ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچایا جائے۔"

پس عدالت ایسی پابندی لگانے کی شرعا مجاز نہیں ہاں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نابالغہ بچی کی پرورش کا حق اس کی ماں کو ہی ہے ماں ہی اس کو اپنے پاس رکھے گی اور ہر طرح سے اس کی پرورش کرے گی۔ مگر عدالت یا ماں اس بچی کے والد کو اس سے ملاقات کرنے سے روک نہیں سکتے۔

عدالت نے اگر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے جو اللہ نے سورۃ البقرہ: 233 میں فرمایا ہے کہ:

(لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا)

ہر ایک نفس کو اس کی ہمت و بساط کے مطابق حکم ہوا کرتا ہے۔ اور:

﴿لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيهِ رِزقُهُ فَليُنفِق مِمّا ءاتىٰهُ اللَّهُ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا ما ءاتىٰها ...﴿٧﴾... سورةالطلاق

"جو وسعت والا ہے وہ اپنی وسعت سے خرچ کرے گا اور جس کا رزق تنگ ہے وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اتنا ہی حکم کرتا ہے جتنی اس کو طاقت دی ہے۔"

تو عدالت بلاشبہ خرچ کی ادائیگی پر مجبور کر سکتی ہے اور عدالت کو اپنے اختیارات بروئے کار لا کر ایسا بندوبست کرنا چاہیے جس کی وجہ سے باپ پر یہ خرچ ادا کرنے پر مجبور ہو جائے اور اپنی ذمہ داری نباہ لے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ384

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ