سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) غیر مدخولہ کی عدت

  • 21411
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 3485

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کیا عورت کی رخصتی سے پہلے اگر طلاق ہو جائے تو کیا اس کی عدت ہوتی ہے یا نہیں اور دوبارہ نکاح کے لئے کیا حکم ہے اور اسی خاوند سے جس نے اس کو پہلے طلاق دی ہے نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (خالد محمود۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر عورت کی رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے تو ایسی عورت کے لئے کوئی عدت نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا ﴿٤٩﴾... سورةالاحزاب

"اے ایمان والو! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو پس تم انہیں فائدہ دو اور اچھے طریقے سے رخصت کر دو۔"

اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مطلقہ غیر مدخولہ کی شرعا کوئی عدت نہیں لہذا ایسی طلاق یافتہ عورت کا نکاح اس کے بعد جہاں اولیاء مناسب سمجھیں کر دیں۔ اگر پہلے شوہر کے ساتھ ہی نباہ ہو سکے اور عورت پسند کرے تو وہاں نکاح کر دیں بصورت دیگر جہاں مناسب رشتہ معلوم ہو نکاح ہو سکتا ہے۔ کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ362

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ