سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) غیر مدخولہ کی عدت

  • 21411
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3831

سوال

(71) غیر مدخولہ کی عدت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کیا عورت کی رخصتی سے پہلے اگر طلاق ہو جائے تو کیا اس کی عدت ہوتی ہے یا نہیں اور دوبارہ نکاح کے لئے کیا حکم ہے اور اسی خاوند سے جس نے اس کو پہلے طلاق دی ہے نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (خالد محمود۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر عورت کی رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے تو ایسی عورت کے لئے کوئی عدت نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا ﴿٤٩﴾... سورةالاحزاب

"اے ایمان والو! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو پس تم انہیں فائدہ دو اور اچھے طریقے سے رخصت کر دو۔"

اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مطلقہ غیر مدخولہ کی شرعا کوئی عدت نہیں لہذا ایسی طلاق یافتہ عورت کا نکاح اس کے بعد جہاں اولیاء مناسب سمجھیں کر دیں۔ اگر پہلے شوہر کے ساتھ ہی نباہ ہو سکے اور عورت پسند کرے تو وہاں نکاح کر دیں بصورت دیگر جہاں مناسب رشتہ معلوم ہو نکاح ہو سکتا ہے۔ کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ362

محدث فتویٰ

تبصرے