سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) خاندانی منصوبہ بندی

  • 21408
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1333

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے الحمدللہ پانچ بچے ہیں۔ ایک بڑا آپریشن ہوا تھا اور باقی چھوٹے آپریشن۔ پیدائش کے وقت کیس سیریس ہو جاتا ہے۔ پیدائش بہت مشکل ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ آپریشن کروا لو۔ اب بھی پیدائش ہونے والی ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپریشن کروا لینا چاہیے یا پیدائش میں لمبا وقفہ کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب و سنت کے نصوص و براہین پر غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ولادت ضبط کرنے کی تین صورتیں پائی جا سکتی ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں۔ (2) قطع نسل (2) منع حمل (3) اسقاط حمل۔ ضبط ولادت کی جدید سے جدید شکل انہی صورتوں میں سے کسی ایک میں شامل و داخل ہو گی۔ اول الذکر صورت کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر و بیوی میں سے کسی ایک کے توالد و تناسل والے اعضاء میں داخلی یا خارجی ایسی تبدیلی کر دی جائے جس کی وجہ سے وہ ابدی طور پر اولاد کی نعمت سے محروم ہو جائیں اور بچہ جنم دینے کے بالکل قابل نہ رہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دور میں مردوں کو خصی کر دیا جاتا اور آج کے ترقی یافتہ دور میں نس بندی اور آپریشن ہے۔ یہ صورت ناجائز و حرام ہے۔

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

" رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن معظون رضی اللہ عنہ پر نکاح سے علیحدہ رہنا رد کر دیا۔ اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔

(صحیح البخاری 5073۔ صحیح مسلم 6/1452۔ ترمذی 1083۔ نسائی 3213۔ ابن ماجہ 2/593۔ مسند احمد 1/175۔ دارمی 2167)

حازم کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا

" كنا نغزوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس لنا شىء فقلنا: ألا نستخصى؟ فنهنا عن ذلك ثم رخص لنا ان ننكح المراة بالثوب ثم قرأ علينا﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٨٧﴾

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے کہا: کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کیا پھر ہمیں رخصت دی کہ ہم ایک کپڑے کے عوض عورتوں سے نکاح کر لیں پھر انہوں نے ہم پر قرآن کی آیت پڑھی۔ اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو۔ یقینا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء 5075)

ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ نس بندی یا بذریعہ آپریشن آلات توالد و تناسل میں ایسا تغیر و تبدل کرنا جس سے نسل کا سلسلہ منقطع ہو جائے بالکل ناجائز و حرام ہے۔ البتہ بعض اوقات ایسی صورت کچھ خواتین کے ساتھ پیش آ جاتی ہے کہ ان کے اعضاء تولید اس قابل نہیں ہوتے کہ جن سے فطری اور طبعی طریقے سے ولادت ہو سکے۔ مجبورا غیر فطری طریقے سے بذیرہ آپریشن بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماہر ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق بذریعہ آپریشن دو یا تین مرتبہ ولادت کے بعد عورت میں بچہ جنم دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی بلکہ جان کے ضیاع کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کے پیٹ میں بچے کا آ جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ایسی اضطراری اور مجبوری کی حالت میں جب کہ ماہر مسلمان ڈاکٹرز فیصلہ دے دیں کہ یہ عورت اب ولادت کے قابل نہیں رہی، ایسی صورت اختیار کرنے کی گنجائش ہے کہ ولادت کا سلسلہ منقطع کر دیا جائے کیونکہ اسلام کا اصول ہے کہ " الضرورات تبيع المحظورات " ضروریات حرام کام کو مباح کر دیتی ہیں۔

لہذا شدید مجبوری کی صورت میں ماہر مسلم ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق آپریشن کروایا جا سکتا ہے۔

ثانی الذکر صورت یعنی منع حمل سے مراد ہر وہ صورت ہے جس کی بنا پر عورت کے رحم میں حمل ٹھہر نہ سکے اور قوت تولید باقی رہے۔ اس کی بعض صورتیں عہد رسالت میں بھی ملتی ہیں۔ آپ کے دور میں منع حمل کی صورت جو مروج تھی اسے "عزل" کہا جاتا ہے۔

اس کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) عزل جائز ہے لیکن پسندیدہ نہیں۔ اس کی قباحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان سے بالکل واضح ہے آپ نے عزل کو مخفی طریقے سے زندہ درگور قرار دیا ہے۔

نیز اسقاط حمل دو مرحلوں میں سے کسی نہ کسی ایک مرحلہ میں ہو گا یا اس میں روح پڑ چکی ہو گی یا نہیں۔ دونوں کے احکام جداگانہ ہیں۔ ان دونوں صورتوں کی تفصیل کسی دوسرے موقع پر ان شاءاللہ ذکر کریں گے۔

صورت مسئولہ میں اگر ماہر مسلم ڈاکٹرز یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ولادت کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہے اور اس کا نظام تولید کمزور پڑ چکا ہے۔ پھر آپریشن کروا سکتے ہیں ورنہ عزل کی کیفیت اختیار کر لین ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ353

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ