سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) لونڈیوں کے ساتھ تعلقات

  • 21407
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 5347

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں کنیز یا لونڈی کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی اولاد کے بارے میں اور لونڈی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے لیے کیا نکاح کی ضرورت پیش ہوئی ہے۔ (محمد طیب اعوان صدر کلاتھ ہاؤس گول چوک بورے والا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کنیز و باندی کے بارے کئی ایک مقامات پر احکامات ذکر فرمائے ہیں۔ مندرجہ بالا مسئلہ کی تفہیم کے لیے درج ذیل آیات پر غور فرمائیں۔

1۔﴿وَإِن خِفتُم أَلّا تُقسِطوا فِى اليَتـٰمىٰ فَانكِحوا ما طابَ لَكُم مِنَ النِّساءِ مَثنىٰ وَثُلـٰثَ وَرُبـٰعَ فَإِن خِفتُم أَلّا تَعدِلوا فَو‌ٰحِدَةً أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَلّا تَعولوا ﴿٣﴾... سورةالنساء

"اور اگر تمہیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف نہ کر سکو گے۔ پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا پھر وہ کنیزیں اور باندیاں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات قرین صواب ہے۔"

2۔﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ النِّساءِ إِلّا ما مَلَكَت...﴿٢٤﴾... سورةالنساء

نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں جو تمہارے قبضے میں آئیں۔

3۔﴿وَمَن لَم يَستَطِع مِنكُم طَولًا أَن يَنكِحَ المُحصَنـٰتِ المُؤمِنـٰتِ فَمِن ما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم مِن فَتَيـٰتِكُمُ المُؤمِنـٰتِ وَاللَّهُ أَعلَمُ بِإيمـٰنِكُم بَعضُكُم مِن بَعضٍ فَانكِحوهُنَّ بِإِذنِ أَهلِهِنَّ...﴿٢٥﴾... سورةالنساء

جو شخص کسی آزاد مومنہ عورت سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھتا ہو وہ کسی مومنہ باندی سے نکاح کر لے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا حال خوب جانتا ہے (کوئی عورت آزاد یا باندی) سب ایک ہی جنس سے ہیں۔ لہذا ان کے مالکوں کی اجازت سے تم ان سے نکاح کر سکتے ہو۔

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُروجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَراءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں یا باندیوں کے وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات میں شرمگاہوں کی حفاظت کے عمومی حکم سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ (1) ازواج (2) مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ ۔ ازواج کا اطلاق زبان عرب کے معروف  استعمال اور قرآن حکیم کی تصریحات کے مطابق صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جو باقاعدہ نکاح میں لائی گئی ہوں اور معروف طریقے کے مطابق ان سے عقد قائم کیا گیا ہو۔ اس کے لیے اردو میں بیوی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ عربی محاورہ اور قرآنی لغت کے اعتبار سے لونڈی و باندی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک اور قبضہ میں ہو۔ اس طرح یہ آیات توضیح کر دیتی ہیں کہ مملوکہ باندی سے بھی مالک کو جنسی تعلقات قائم کرنا جائز ہیں۔ اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے اگر اس کے لیے نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے علیحدہ بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی۔ کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتیں۔

عصر حاضر میں بعض متجددین اور مغرب زدہ طبقہ جنہیں باندی سے تمتع کا جواز تسلیم نہیں، وہ سورۃ النساء کی آیت " وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ " سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں کہ لونڈی سے بھی نکاح کر کے ہی تمتع کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی متحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن ان لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید طلب پا کر اپنا مزعومہ مسئلہ اخذ کر لیتے ہیں اور اس آیت کا دوسرا ٹکڑا جو ان کے مدعا کے خلاف پڑتا ہے اسے ہضم کر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایت ان لفظوں میں کی گئی ہے " فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ " ان باندیوں سے نکاح تم ان کے مالکوں کی اجازت سے کرو اور ان کو معروف طریقہ کے مطابق ان کے مہر ادا کرو۔ یہ آیت کریمہ تو صاف بتلا رہی ہے کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا مسئلہ نہیں بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیر بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کے اخراجات کا بار نہیں اٹھا سکتا جس کی بنا پر وہ دوسرے شخص کی مملوکہ باندی سے نکاح کا خواہش مند ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اپنی لونڈی سے نکاح کا مسئلہ ہو تو اس کے وہ اہل و سرپرست کون ہو سکتے ہیں جن سے اسے اجازت لینی پڑتی ہے؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف " فَانكِحُوهُنَّ " کو لیتے ہیں اور اس کے بعد " بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ " کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں (از تفہیم القرآن مع حک و اضافہ)

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ثَلاثَةٌ لَهُمْ أجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أدَّى حَقَّ الله، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَأدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ)

(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح الفصل الاول کتاب الایمان رقم 11)

تین آدمیوں کے لیے دوگنا اجر ہے۔ ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا اور ایسا غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق بھی۔ اور ایسا آدمی جس کے ماتحت باندی ہے اور اس سے جماع کرتا ہے، اسے ادب سکھاتا ہے تو اس کے ادب کو اچھا بناتا ہے اور اسے تعلیم سکھاتا ہے تو اس کی تعلیم کو اچھا کرتا ہے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کر لیتا ہے، اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔

یہ صحیح حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باندی کے ساتھ تمتع بوجہ ملکیت ہے اسی لیے فرمایا " بطوها " وہ اس سے وطی کرتا ہے، پھر آزاد کر کے نکاح کر لیتا ہے تو دہرا اجر ہے۔ ظاہر ہے شادی سے قبل وہ اس سے تمتع بوجہ ملک کرتا ہے۔ بہرکیف سلف صالحین اور قدیم ائمہ مفسرین کا یہی موقف ہے کہ باندی سے تمتع بوجہ ملک ہے، اسی لیے اللہ نے انہیں ازواج سے علیحدہ ذکر کیا ہے۔ امام بیہقی نے السنن الکبری 7/127 میں ایک باب یوں باندھا ہے " باب النكاح وملك اليمين لا يجتمعان " نکاح اور ملک یمین دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ اس باب کے تحت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اثر لائے ہیں کہ ان کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے اپنے غلام کے ساتھ جماع کر لیا اور عورت نے کہا کیا اللہ نے قرآن میں نہیں فرمایا " أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ " کہ تمہارے ملک عین جو ہیں تم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ میرا غلام میرا ملک عین ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کو مارا اور ان دونوں میں جدائی کی اور دیگر شہروں کی جانب لکھ بھیجا۔ جو بھی عورت اپنے غلام سے تمتع کرے یا بغیر گواہ یا ولی کے شادی کرے ان پر حد لاگو کرو۔ اور ابن کثیر و طبری میں ایک منقطع اثر میں ہے کہ صحابہ نے کہا اس عورت نے قرآن کی بے جا تاویل کی ہے۔ اس اثر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد کو اپنی باندی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے نہ کہ عورت اپنے غلام سے۔

اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن 3/265۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِنّا أَحلَلنا لَكَ أَزو‌ٰجَكَ الّـٰتى ءاتَيتَ أُجورَهُنَّ وَما مَلَكَت يَمينُكَ مِمّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيكَ...﴿٥٠﴾... سورةالاحزاب

اے نبی! ہم نے تمہارے لیے تمہاری وہ بیویاں حلال کر دیں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیویوں کے لیے باندیوں کو بھی حلال فرمایا ہے۔ اس اجازت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنی قریظہ کی باندیوں میں سے ریحانہ رضی اللہ عنہا اور غزوہ بنو مصطلق کی باندیوں سے جویریہ رضی اللہ عنہا غزوہ خیبر کی باندیوں سے صفیہ رضی اللہ عنہا اور مقوقس مصر کی بھیجی ہوئی باندی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے مخصوص فرمایا ان میں سے پہلی تین کو آپ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا لیکن ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ نہیں بھی ثابت نہیں کہ آپ نے اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا ہو بلکہ ملک یمین کی بنا پر ہی اس سے تمتع کرتے رہے اور ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے آپ کا بیٹا ابراہیم پیدا ہوا۔

باندی سے جو اولاد ہو گی وہ اس شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کی وفات کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جائے گی۔ اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع ہے۔ باندیوں کے احکام کی تفصیل کے لیے دیکھیں سورۃ نساء کی تفسیر "تیسیر القرآن" از مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور تفہیم القرآن از سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ348

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ