گزارش یہ ہے کہ آپ کا "مجلۃ الدعوۃ" فروری 2000 کا شمارہ میں نے پڑھا اس کے صفحہ 4 پر "استاذ ابو انس شہید" کی زندگی کے بارے ان کے بھائی نے لکھا ہے کہ:
"شہید کی شادی ہوئی تو نکاح پڑھانے کے بعد ان کے چچا نے چھوہارے تقسیم کیے تو ابو انس نے کھڑے ہو کر مجمع میں کہا کہ یہ ہندوانہ رسم ہے جب کہ ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اس بارے میں صحیح راہنمائی فرمائیں؟ (عبدالجبار میمن۔ ویل ڈریس شاب نمبر 320 طارق روڈ کراچی)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری راہنمائی کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی و رسول بنا کر مبعوث کیا، آپ نے تمام امور میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ خواہ عبادات ہوں یا معاملات۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یقینا تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔"
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ کی اقتداء و اتباع ضروری ہے خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، معیشت سے ہو یا سیاست سے، الغرض زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات لینی چاہئیں۔ شرعی معاملات میں سے ایک مسئلہ نکاح کا بھی ہے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنھم کے نکاح پڑھائے لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات نہیں ملتی کہ آپ نے نکاح کے انعقاد پر چھوہارے وغیرہ تقسیم کئے ہوں۔ مجھے یہ بات نہیں ملی کہ یہ ہندوانہ رسم ہے مسلمانوں میں اس چیز کا رواج چند ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر ہے۔ ان کا مختصر تجزیہ درج ذیل ہے۔
(بیہقی 7/287، الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی 2/741)
"عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی عورت سے شادی کی تو آپ پر خشک کھجوریں بکھیری گئیں۔"
اس کی سند میں الحسن بن عمرو بن سیف العبدی ہے۔ امام علی بن المدینی اور امام بخاری نے اسے کذاب کہا ہے اور امام ابو حاتم رازی نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
(المغنی فی ضعفاء الرجال 1/254، کتاب الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 1/208)
ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں " متروك " (تقریب ص: 71)
امام بیہقی فرماتے ہیں: " فيه لين "
ابن حبان نے کہا یہ متروک ہونے کا مستحق ہے۔ (کتاب المجروحین 2/213)
اس کی متابعت ابن ابی داؤد نے کی ہے لیکن اس کی سند میں سعید بن سلام کذاب ہے۔ امام احمد نے اسے کذاب، امام بخاری نے روایات گھڑنے والا وضاع اور دارقطنی نے متروک اور باطل روایات بیان کرنے والا قرار دیا ہے۔
(کتاب الموضوعات 2/264 مطبوعہ کراچی)
علامہ محمد طاہر پٹنی ھندی نے بھی اس روایت کو باطل قرار دیا ہے۔
(تذکرۃ الموضوعات ص: 126)
لہذا یہ روایت باطل و من گھڑت ہے۔
"عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی شادی کرتے یا خود شادی کرتے تو خشک کھجور بکھیرتے۔"
امام بیہقی فرماتے ہیں اس کی سند میں عاصم بن سلیمان البصری ہے جسے عمرو بن علی نے جھوٹ اور وضع حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ امام ذھبی فرماتے ہیں " كذبه غير واحد " اسے بہت سارے محدث نے کذاب قرار دیا ہے۔
(المغنی فی ضعفاء الرجال 1/506) لہذا یہ روایت بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
(3) عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا مجھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری آدمی کی شادی میں حاضر ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور انصاری کا نکاح کر دیا اور فرمایا الفت، خیر اور اچھے کاموں کو لازم پکڑو۔ اپنے ساتھی کے سر پر دف بجاؤ تو اس کے سر پر دف بجائی گئی اور میووں اور شکر کے پیکٹ لائے گئے تو آپ نے وہ صحابہ پر بکھیر دئیے تو قوم رک گئی اور انہوں نے اسے نہ لوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کس قدر عمدہ بردباری ہے تو لوٹتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ نے اس اس دن لوٹنے سے ہمیں روکا تھا۔ آپ نے فرمایا:
"میں نے تمہیں لشکروں کی لوٹ مار سے روکا تھا۔ ولیموں کی لوٹ سے نہیں روکا پس تم لوٹو۔"
معاذ بن جبل نے کہا: "اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ہم سے چھین رہے تھے۔ (الکامل 1/312'313، الموضوعات لابن جوزی 2/260)
یہ روایت بھی جھوٹی ہے۔ اس کی سند میں بشیر بن ابراہیم الانصاری ہے۔
امام عقیلی فرماتے ہیں یہ امام اوزاعی کے نام سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ ابن عدی نے فرمایا وہ میرے نزدیک روایات گھڑنے والوں میں سے ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں وہ ثقہ راویوں پر روایتیں گھڑتا تھا۔ (میزان 1/311)
یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں حازم اور لمازہ دونوں مجہول ہیں۔ (الموضوعات لابن الجوزی 2/266)
(4) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری مرد اور عورت کی شادی میں شریک ہوئے آپ نے فرمایا: "تمہارا شاھد کہاں ہے؟ تو انہوں کہا ہمارا شاھد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "دف" تو دف لائے۔ آپ نے فرمایا اپنے ساتھی کے سر پر بجاؤ۔
پھر وہ اپنے برتن چھوہاروں وغیرہ سے بھر کر لائے اور انہوں نے چھوہارے وغیرہ بکھیرے تو لوگ اسے حاصل کرنے سے ڈرے جب آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے لوٹ سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے لشکروں میں لوٹ سے منع کیا تھا شادی اور اس قسم کے مواقع سے منع نہیں کیا۔ (الموضوعات 2/266)
اس کی سند میں، خالد بن اسماعیل ہے جو کہ ثقہ راویوں پر روایات گھڑتا تھا۔ جیسا کہ امام ابن عدی نے فرمایا اور امام ابن حبان نے فرمایا: اس سے کسی صورت بھی حجت پکڑنا جائز نہیں۔
امام بیہقی فرماتے ہیں:
" ولا يثبت فى هذا الباب شئى " (بیہقی 7/288)
"اس مسئلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں۔"
مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے بانٹنے اور بکھیرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔
یہ صرف ایک رواج ہے جو مسلمانوں میں چل نکلا ہے اور اس کے لئے دوکاندار سپیشل اشیاء پیکٹوں میں محفوظ کر کے فروخت کرتے ہیں اور شادی والے حضرات اسے لے جا کر نکاح کے بعد تقسیم کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنھم سے کوئی بات اس مسئلہ میں صحیح سند سے نہیں ملتی۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب