رمضان المبارک کا جہاد سے کیا تعلق ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ (محمد آصف۔ لاہور)
دین اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ یہ پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد اور ارکان شمار ہوتی ہیں اور اسلام کی چوٹی اور کوہان جہاد فی سبیل اللہ کو قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "دین کی بنیاد اسلام ہے اور اس کا ستون نماز اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد ہے۔"
(بخاری و مسلم بحوالہ مشکوۃ)
معلوم ہوا کہ اسلام کے ارکان کی صحیح حفاظت جہاد فی سبیل اللہ سے ہی ممکن ہے کیونکہ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کا سب سے اونچا سبب و ذریعہ ہے۔ جبر و ستم، قہر و ظلمت اور فساد فی الارض کے انسداد کا موثر ترین وسیلہ ہے۔ مظلوموں اور مقہوروں کو عدل و انصاف فراہم کرنے کا سب سے عمدہ راستہ ہے۔ توحید، نماز، روزہ، زکاۃ اور حج کے قیام کا واحد حل ہے۔ رمضان المبارک کے ساتھ جہاد کا بڑا گہرا رشتہ ہے رمضان المبارک جس طرح ہمیں دوسری بہت ساری برکات و ثمرات سے نوازتا ہے اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بھی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کئی ایک غزوات و سرایا رمضان المبارک میں سر انجام دئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو چونکہ آپ اہل مکہ کے ظلم و ستم اور ان کی خونخوار وحشیانہ اور غارت گرانہ عادات سے بخوبی واقف تھے اور احتیاط کا تقاضا بھی تھا کہ دشمنان اسلام کی حرکات پر بھرپور نظر رکھی جائے اس لئے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مختلف ٹولیاں مقرر فرمائیں جو دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھتی تھیں۔
بعض مہمات ایسی ہیں جن میں آپ نے بذات خود شرکت فرمائی اور بعض مہمات پر اپنے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کچھ مجاہدین روانہ کیے۔ اس مختصر سے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہونے والے وہ غزوات و سرایا ذکر کئے جا رہے ہیں جو رمضان المبارک میں رونما ہوئے۔
1۔ سریہ سیف البحر
رمضان المبارک 1ھ میں سریہ سیف البحر ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں 30 مجاہدین کا دستہ روانہ کیا اور کفار سیف البحر میں ابوجہل کی قیادت میں 300 کے قریب تھے۔ دشمنان اسلام نے مسلمانوں کی آمد کی اطلاع پا کر فرار اختیار کیا۔ اور مجاہدین گشت لگا کر واپس آ گئے۔ اس سریہ میں فریقین کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
2۔ غزوہ بدر الکبری
رمضان المبارک 2ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیادت میں 313 کے قریب جانثاران اسلام کا لشکر لے کر مقام بدر کی طرف روانہ ہوئے جو کہ مکہ سے سات منزل اور مدینہ سے تین منزل پر واقع ہے۔
دشمن دو تہائی سفر طے کر چکا تھا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدافعت کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے۔
دشمنان اسلام ابوجہل کی قیادت میں ایک ہزار کی تعداد میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی اس معرکے میں 22 مسلمان شہید ہوئے جب کہ 70 کافر زخمی اور 70 واصل جہنم ہوئے۔
3۔ غزوہ بنی سلیم
24-25 رمضان المبارک 2ھ میں یہ غزوہ بنی سلیم مقام ماء الکدر میں منعقد ہوا مسلمان وہاں تین دن تک رہے۔
4۔ سریہ ام قرفہ
رمضان المبارک 6ھ میں قبیلہ فزارہ نے ام قرفہ کی تحریک سے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے تاجرانہ قافلہ کو لوٹا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر روانہ کیا گیا۔ اس سریہ میں ام قرفہ اور اس کی دختر گرفتار ہوئی، باقی افراد بھاگ گئے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
5۔ سریہ منقصہ
7ھ رمضان المبارک میں اہل خیبر کے اتحادی قبیلہ اہل منقصہ سے خفیف سی لڑائی ہوئی جس میں مسلمانوں کے قائد عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ تھے۔ دشمنوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
6۔ سریہ خربہ
رمضان المبارک 7ھ میں جہینہ قبیلے کے ساتھ لڑائی ہوئی، مسلمانوں کے سردار اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے ایک کافر نہیک بن مرداس کا پیچھا کیا۔ جب تلوار اٹھائی تو اس نے کلمہ شہادت پڑھا۔ لیکن اسامہ نے کلمہ شہادت پڑھنے کے باوجود تلوار سے وار کر کے قتل کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا۔ اسامہ نے کہا: اس نے تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔ تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا۔
7۔ فتح مکہ
رمضان المبارک 8ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں 10 ہزار مسلمان فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اس موقع پر 2 مسلمان شہید ہوئے جب کہ 12 کافر مارے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن عام معافی کا اعلان فرما دیا تھا۔
8۔ سریہ خالد رضی اللہ عنہ
رمضان المبارک 8ھ میں سریہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہوا۔ جس میں قبیلہ بنو کنانہ کا بت عزی گرایا گیا اور بکھرے ہوئے بالوں والی عزی نامی عورت کو قتل کیا گیا جس کے نام کا بت بنا کر پوجا کی جا رہی تھی۔
9۔ سریہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
رمضان 8ھ میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قبیلہ بنو ھذیل کا بت سواع توڑا گیا۔
10۔ سریہ سعد اشہلی رضی اللہ عنہ
رمضان 8ھ میں ہی سعد بن زید اشہلی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں 20 مجاہدین کا دستہ روانہ کیا گیا جنہوں نے قبیلہ اوس و خزرج کا بت منات توڑا۔ جب مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہاں مجاور نے ایک برہنہ عورت کو کہا کہ یہ تیرے نافرمان بندے ہیں جو تجھے گرانے آئے ہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اس عورت پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ (ماخوذ از رحمۃ اللعالمین وغیرہ)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے، بعض آپ کی قیادت میں اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم کی قیادت میں دس غزوات و سرایا لڑے اور دشمنان اسلام کے بت کدوں اور شرک کے اڈوں کو منہدم کیا اور کلمہ توحید بلند کیا۔ یہ صرف وہ غزوات و سرایا ہیں جو آپ کی مبارک زندگی میں رمضان المبارک کے اندر لڑے گئے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک جہاد فی سبیل اللہ کا درس بھی دیتا ہے، روزے کی حالت میں بھوک پیاس برداشت کر کے مالک حقیقی کے لئے اپنی جان اور مال صرف کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے ہمیں بھی اس رمضان سے درس جہاد لینا چاہیے اور وقت نکال کر معسکرات اور مختلف محاذوں پر جا کر اپنی خدمات دین اسلام کے لئے پیش کرنی چاہئیں۔ تاکہ ہمارا بھی جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ پڑ جائے اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم سنت ادا ہو جائے رمضان المبارک اور جہاد فی سبیل اللہ کا آپس میں بڑا گہرا ربط ہے اللہ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اس کی راہ میں لڑتے ہوئے حالت روزہ میں مقام شہادت پر فائز ہو جائیں۔ آمین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ روزہ ان احکامات شرعیہ میں سے ہے جن کا ذکر سابقہ آسمانی ادیان میں موجود ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(مشکوٰۃ المصابیح (4) بخاری، کتاب الایمان (8) مسلم، کتاب الایمان (21-45)
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (1) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ (2) نماز قائم کرنا۔ (3) زکوٰۃ ادا کرنا۔ (4) حج کرنا۔ (5) رمضان المبارک کا روزہ رکھنا۔"
اس حدیث نبوی سے معلوم ہوا کہ روزہ اسلام کی ایسی اہم عبادت ہے جسے اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ روزہ اپنے اندر ایک عجیب خصوصیت رکھتا ہے کہ یہ ریاکاری اور دکھلاوے سے کوسوں دور اور چشم اغیار سے پوشیدہ، سراپا اخلاص اور عابد و معبود، ساجد و مسجود کے درمیان ایک راز ہے۔ اس کا علم روزہ دار اور حق تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسری کو نہیں ہوتا۔ جیسے دیگر عبادات نماز، حج، جہاد وغیرہ کی ایک ظاہری ہئیت و صورت ہوتی ہے روزے کی اس طرح کوئی ظاہری شکل و صورت موجود نہیں جس کی وجہ سے کوئی دیکھنے والا اس کا ادراک کر سکے۔
جیسے روزہ رازق و مرزوق اور مالک و مملوک کے درمیان ایک سر و راز ہے اسی طرح اس کے ثواب و بدلہ کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ روزے کا بدلہ اور ثواب جب عطا کرے گا تو فرشتوں کو ایک طرف کر دے گا اور اس کا اجر و ثواب خود عطا کرے گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی نقل فرماتے ہیں:
(مشکوٰۃ (1959) بخاری، کتاب الصوم (1904) مسلم، کتاب الصیام (1151)
"آدم کے بیٹے کے تمام اعمال بڑھا دئیے جائیں گے۔ ایک نیکی دس گنا سے سات سو تک اللہ تعالیٰ فرمائے گا مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کروں گا۔ اس نے اپنی خواہش اور کھانا میری خاطر ترک کیا تھا۔"
(أَجْزِي) لفظ کو اگر بصیغہ مجہول یعنی اُجزى پڑھا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ روزے کا بدلہ میں خود ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزہ دار کے لیے جنت میں ایک خاص دروازہ بنا دیا ہے جس کا نام ((باب الریان)) ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
(مشکوٰۃ (1957) عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، بخاری، کتاب بدء الخلق (3257)، مسلم، کتاب الصیام (1152)
"جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازے کا نام "الریان" ہے اور جس سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو گا۔"
ایک اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(مشکوٰۃ عن ابی ھریرۃ (1956)، بخاری، کتاب الصوم (1956)، مسلم، کتاب الصیام (1079)
"جب رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔"
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کے لیے جنت کے دروازے اللہ تبارک و تعالیٰ کھول دیتا ہے اور ان کے لیے جنت میں ایک خصوصی دروازہ بھی ہے جسے "باب الریان" کہتے ہیں۔
اللہ کی جنت کا حصول عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ سے ہوتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے بھی اس کائنات میں موجود ہیں جو صحیح عقیدے سے محروم اور اعمال سئیہ کے دلدادہ ہیں۔ افیون و چرس اور ہیروئن کے رسیا بدکاری اور شراب نوشی سے مخمور، حلال و حرام کی پابندیوں سے آزاد، عفت و عصمت کی چادر کو تار تار کرنے والے، حیاء و غیرت کا جنازہ نکال دینے والے اور پلید و گندی زبانوں سے دمام دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر، نہ نیتی نہ قضا کیتی جیسے نعرے لگانے والوں نے اپنی نجات کے لیے پاک پتن میں ایک مصنوعی بہشتی دروازہ بنا رکھا ہے اور یہ ایسا دروازہ ہے جہاں سے گزرنے والوں کو پولیس سے ڈنڈے بھی کھانے پڑ جاتے ہیں لیکن اللہ کی جنت ایسی ہے جو ان خرافات سے مبرا ہے اور وہ اہل توحید، مومنین و مجاہدین اور اللہ کے نیک و صالح بندوں کے لیے بنائی گئی ہے جو عقائد و اعمال کے اعتبار سے نفیس ترین لوگ ہیں اور فرائض کی پابندی کرنے والے اور نوافل و تطوع کو خوش دلی اور رغبت و اشتہاء اور ذوق و شوق سے سر انجام دینے والے ہیں۔
اللہ وحدہ لا شریک لہ نے فرضیت روزہ والی آیت کریمہ میں اس کا مقصد تقویٰ پرہیزگاری، خوف باری تعالیٰ اور للہیت بتایا ہے۔ روزہ انسان کو ایسی قوت برداشت سکھاتا ہے جس کی بنا پر انسان اپنے نفس پر کنٹرول کر سکتا ہے اور روزہ رکھنے سے انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث آدمی اپنے آپ کو تمام اعمال سئیہ، اخلاق رذیلہ اور عادات شنیعہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس کا دلیل و نہار رسومات قبیحہ سے مبرا اور صاف و شفاف ہو جاتا ہے۔ شب و روز ذکر باری تعالیٰ، تقویٰ و پرہیزگاری، حلاوت ایمانی، انابت الی اللہ، زہد و تقویٰ، رکوع و سجود، تسبیح و تہلیل، خشوع و خضوع، صبر و تحمل، بردباری، سنجیدگی و متانت جیسی صفات عالیہ میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے اور روزہ انسان کو ایسی عظیم خوبی سے ہمکنار کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ محرمات سے اجتناب کر سکتا ہے اور دوران روزہ جو اشیاء اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہیں ان سے بچ کر یہ سبق سیکھ لیتا ہے کہ اگر میرے لیے وقتی طور پر حلال اشیاء سے پرہیز کرنا آسان ہے تو مستقل اور ابدی حرام چیزوں سے بچنا کوئی مشکل نہیں۔
ارشاد نبوی ہے:
(مشکوٰۃ عن ابی ھریرۃ (1999)، بخاری، کتاب الصوم (1903)
"جس آدمی نے روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ وحدہ لا شریک لہ، کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں"
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مشکوٰۃ (1959)، بخاری، کتاب الصوم (1904)، مسلم، کتاب الصیام (1151)
"جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو وہ شہوت انگیز گفتگو نہ کرے اور نہ شوروغوغا سے کام لے اگر اسے کوئی گالی گلوچ دے یا اس سے لڑائی کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار ہوں۔"
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کتنے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزہ سے پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جنہیں اپنے قیام سے بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔"
یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مسند احمد 2/373،441، مستدرک حاکم 1/131، بیہقی 4/270، شرح السنہ 6/247 (1747)، ابن ماجہ (1690) وغیرہ میں موجود ہے۔ اس کی سند قوی ہے اور طبرانی کبیر میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(مجمع الزوائد 3/202 بحوالہ مرعاۃ المفاتیح 6/530)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کو حالت روزہ میں گالی گلوچ، بد کلامی، فحش گوئی، تہمت طرازی، عیب جوئی، دروغ گوئی، جھوٹ کی اشاعت، جھوٹ پر عمل کرنا، کذب بیانی، غیبت، ہو و حرص، طمع و لالچ، خواہشات نفسانیہ، چوری، ڈکیتی، آنکھ مچولی، برائی، زنا فحاشی، عریانی، گانا بجانا، رقص و سرود کی محافل قائم کرنا، گندا لٹریچر شائع کرنا اور اسے فروغ دینا، وی سی آر، ٹی وی اور ڈش پر حیا سوز پروگرام دیکھنا، بدچلنی، اوباشی، نا انصافی، ظلم و ستم، جبر و استبداد، نوسر بازی، بدعنوانی، رشوت، سود خوری، سگریٹ نوشی، حقہ پینا، شراب خوری، جوا و قمار بازی، خیانت و خباثت، چغل خوری، غنڈہ گردی، عیاری، دغا بازی اور دیگر شیطانی امور سے اجتناب از حد ضروری ہے وگرنہ روزے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ جو آدمی بھوکا پیاسا رہ کر امور بالا کا مرتکب ہو گا اس کا روزہ نہیں بلکہ فاقہ ہو گا۔
اسی طرح شب زندہ دار ہو کر اخلاق رذیلہ کا پیکر بنے اور اعمال سئیہ کا مرتکب ہو تو اسے رات کی بیداری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ہمارے ملکی اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر حضرات کو بھی سوچنا چاہیے جو جھوٹ کی اشاعت اور جرائم کو ہوا دینے سے رمضان المبارک میں بھی باز نہیں آتے اور تقریبا تمام اخبارات فاحشہ اور بدکار عورتوں کی تصاویر نمایاں کر کے شائع کرتے ہیں۔ اگر حالت روزہ میں ایسے امور سے اجتناب نہ کیا گیا تو روزے کا کیا فائدہ؟
(مشکوٰۃ (1969) بخاری، کتاب الصوم (1906،1907) مسلم، کتاب الصیام (1080)
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور نہ افطار کرو حتیٰ کہ تم اسے دیکھ لو۔ اگر تمہارے اوپر مطلع ابر آلود ہو تو اس کے لیے گنتی کرو۔"
(مشکوٰۃ (1970) بخاری، کتاب الصوم (1909) مسلم، کتاب الصیام (1081)
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاند کے دیکھنے پر روزہ رکھو اور اس کے دیکھنے پر ہی افطار کرو۔ اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تین (30) دن پورے کر لو۔"
یعنی شعبان المعظم کی 29/ تاریخ کو چاند دیکھو اگر نظر آ جائے تو دوسرے دن روزہ رکھو اور اگر نظر نہ آئے یا مطلع ابر آلود ہو تو پھر شعبان کے 30 دن پورے کر کے رمضان کا روزہ رکھو۔ شک کا روزہ کسی بھی طرح نہیں رکھنا چاہیے۔
(مشکوٰۃ (1977) ابوداؤد، کتاب الصوم (2334) ترمذی، کتاب الصوم (686) نسائی، کتاب الصیام (2187) ابن ماجہ (1645) دارمی (1682)
"عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔"
یہ اثر بخاری کتاب الصوم باب نمبر 11 میں تعلیقا مروی ہے۔ رؤیت ہلال کے لیے ایک عادل و قابل اعتماد شخص کی گواہی کافی ہے۔
(ابوداؤد، کتاب الصوم، باب فی شھادۃ الواحد علی رؤیۃ ھلال رمضان (2342) دارمی، کتاب الصیام، باب الشھادۃ علی رؤیۃ ھلال رمضان (1698) دارقطنی 2/156، بیہقی 4/212، مسند امام دارمی عبداللہ بن محمد السمرقندی 2/4 ابن حبان (871) حاکم 1/423، التلخیص الحبیر 2/187)
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے اسے دیکھ لیا ہے، آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کے چاند کی رؤیت کے بارے میں ایک عادل مسلمان کی گواہی کفایت کر جاتی ہے۔ اس کی تائید میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث یوں مروی ہے:
(ابوداؤد (2340) بیہقی 4/212) المنتقیٰ لابن جارود (379)
"ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے کہا: میں نے رمضان المبارک کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: اے بلال: لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔"
یہ روایت نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، حاکم اور طحاوی میں بھی موجود ہے لیکن اس کی سند سماک بن حرب از عکرمہ از ابن عباس کے طریق سے مروی ہے اور اس سند میں اضطراب ہوتا ہے۔ بہرکیف میں نے بطور تائید اس کو ذکر کیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ اوپر ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث صحیح سے ثابت ہے اس لیے اس کا ضعف مضر نہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو کہتے:
"اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ تو اسے ہم پر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع کر اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جس سے تو محبت کرتا ہے۔ اے ہمارے رب اور جسے تو پسند کرتا ہے (اے چاند) ہمارا اور تیرا رب اللہ ہے۔"
(سنن دارمی، کتاب الصوم، باب ما یقام عند رؤیۃ الھلال (1694) یہ روایت کثرت شواھد کی بنا پر صحیح ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور موارد الظمآن محقق جلد 7 (2374)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے۔"
اس آیت کریمہ میں (الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ) سے مراد صبح صادق اور (الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ) سے مراد رات ہے۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو میں نے اونٹ باندھنے والی ایک سیاہ رسی اور ایک سفید رسی اپنے تکیے کے نیچے رکھ لی۔ میں رات کے وقت انہیں دیکھنے لگا تو مجھے صاف نظر نہ آئیں۔ میں نے صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر سارا ماجرا سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ) اس آیت کریمہ میں سیاہ اور سفید دھاگے سے مراد رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم (1916) و کتاب التفسیر (4509، 4510)
اس آیت میں اللہ وحدہ لا شریک لہ نے سحری کا وقت بتا دیا ہے کہ صبح صادق تک تم کھا پی سکتے ہو۔ وقت کی حدود متعین کرنے میں کچھ وسعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جس طرح آج گھڑیاں موجود ہیں ظاہر بات ہے زمانہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم وغیرھم میں یہ ایجادات موجود نہ تھیں۔ لوگ ستاروں اور چاند کے ساتھ رات کے اوقات معلوم کرتے تھے۔ اس لیے اگر سحری میں ایک دو منٹ کی تاخیر ہو جائے تو کوئی قیامت بپا نہیں ہو جاتی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابوداؤد، کتاب الصوم، باب فی الرجل یسمع النداء والاناء فی یدہ (2350) مستدرک حاکم 1/426، 205، 203، بیہقی 4/218، دارقطنی (2162) باب فی وقت السحر)
"جب تم میں سے کوئی آدمی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس برتن کو حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے۔"
علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(وفيه اباحة الاكل والشرب من الاناء الذى فى يده عند سماع الاذان للفجر وان لا يضعه حتى يقضى حاجته)(مرعاۃ المفاتیح 6/469)
اس حدیث میں فجر کی اذان سنتے وقت اس برتن سے کھانے اور پینے کی اباحت معلوم ہوتی ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ وہ اسے اپنی حاجت پورا کرنے سے پہلے نہ رکھے۔ مسند احمد 3/348 میں جابر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی ہے جسے علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح 6/470)
(مشکوٰۃ (1982) بخاری، کتاب الصوم (1923) مسلم، کتاب الصیام (1095)
"انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سحری کھاؤ اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔"
(ابوداؤد (2344) نسائی (2162) نیل المقصود (2344) از شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ موارد الظمآن (882) اسنادہ حسن)
"عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں سحری کھانے کی طرف دعوت دی تو آپ نے فرمایا: "صبح کے بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔"
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کا ایک شاہد بسند حسن صحیح ابن حبان میں موجود ہے۔ (موارد الظمآن (881) 3/184)
(ابوداؤد (2345)، موارد الظمآن (883) 3/186)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔"
"عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سحری کھاؤ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو۔"
"عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق سحری کا کھانا ہے۔"
(موارد الظمآن (885) طبرانی کبیر 11/199 (11485)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یقینا ہم نبیوں علیہم السلام کا گروہ ہیں۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی سحری میں تاخیر کریں اور افطاری جلدی کریں اور اپنی نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں۔"
اس کی سند صحیح ہے اور اس کے کئی ایک شواھد بھی ہیں۔
سحری کی اذان
(مشکوٰۃ (680) بخاری، کتاب الاذان (617) (621) مسلم، کتاب الصیام 1092)
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یقینا بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان دیتا ہے۔ سو تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے۔" فرمایا: عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے وہ اتنی دیر تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک انہیں کہا نہ جائے، تو نے صبح کر دی، تو نے صبح کر دی۔"
"عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے اس لیے کہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں تاکہ قیام کرنے والا لوٹ آئے اور سونے والا بیدار ہو جائے۔"
سنن نسائی (638) 2/10 میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:
"دونوں کی اذان میں اتنا وقفہ ہوتا کہ یہ اذان کہہ کر اترتا اور یہ چڑھ جاتا۔"
علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (حاشیہ سندھی علی نسائی)
اس حدیث سے مراد دونوں کے درمیان وقفے کی قلت ہے نہ کہ حد کا تعین امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(قال العلماء: معناه أن بلالاً كان يؤذن قبل الفجر ويَتَرَبَّصُ بعد أذانه للدعاء ونحوه، ثم يَرْقُبُ الفجر فإذا قارب طلوعه نزل فأخبر ابن أم مكتوم ، فيتأهب ابن أم مكتوم بالطهارة وغيرها، ثم يرقى ويشرع في الأذان مع أول طلوع الفجر والله اعلم)(شرح مسلم للنووی 7/177 طبع بیروت)
"علماء نے کہا ہے اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ فجر سے پہلے اذان دیتے تھے اور اذان کے بعد دعا وغیرہ کے لیے بیٹھے رہتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو اترتے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو خبر دیتے تو وہ وضوء وغیرہ کی تیاری کرتے پھر اوپر چڑھ جاتے اور فجر طلوع ہوتے ہی اذان شروع کر دیتے۔"
غرض سحری کی اذان اور صبح صادق میں اتنا وقفہ ضرور ہونا چاہیے جس سے آدمی آسانی سے سحری کھا لے۔ قیام کرنے والا واپس پلٹ آئے، سویا ہوا بیدار ہو جائے اور روزے کی تیاری کر لے کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کھانے پینے سے مانع نہ تھی اس لیے کہ وہ صبح کاذب میں ہوتی تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصوم باب قدر کم بین السحور و صلاۃ الفجر میں یہ مسئلہ اس حدیث کی رو سے سمجھایا ہے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(بخاری (1921) نسائی (2155، 2156)
"ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف اٹھے۔ میں (انس رضی اللہ عنہ) نے کہا: اذان اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ تو انہوں نے کہا: پچاس آیات کی مقدار۔"
(سنن نسائی، کتاب الصیام، باب اسحور بالسویق والتمر (2166)
"انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت فرمایا: اے انس! میں روزے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کوئی چیز کھلاؤ۔ میں آپ کے پاس کھجور اور پانی والا برتن لایا اور یہ سارا معاملہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد کا ہے آپ نے فرمایا: اے انس! کوئی آدمی تلاش کر جو میرے ساتھ کھانا کھائے۔ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو دعوت دی تو وہ تشریف لائے اور کہا میں نے ستو کا ایک گھونٹ پی لیا ہے اور روزے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی روزے کا ارادہ رکھتا ہوں انہوں نے آپ کے ساتھ سحری کھائی پھر آپ کھڑے ہوئے، دو رکعت (سنت) پڑھی پھر نماز صبح کے لیے گھر سے نکلے۔" اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اذان بلال کے بعد اتنا وقفہ ضرور ہوتا تھا جس میں آدمی سحری کا انتظام کر کے کھانا کھا لے۔ لہذا دونوں اذانوں کے درمیان اتنا وقفہ ضرور ہونا چاہیے جس میں سحری کا بندوبست ہو سکے۔ واللہ اعلم
(ابوداؤد، کتاب الصوم، باب النیۃ فی الصیام (2454) ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء لا صیام لمن لم یعزم من اللیل (730) نسائی، کتاب الصیام (2332) دارمی (1705)
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔"
چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں مثلا: روزہ کی نیت نہ کی گئی اور روزہ جیسی پابندیاں اپنے اوپر عائد کر لیں تو روزہ نہ ہو گا بلکہ فاقہ ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ نیت کے لیے زبان سے تلفظ کی ضرورت نہیں۔ یہ دل کا فعل ہے۔ بعض افراد نے روزے کی نیت کے یہ الفاظ وضع کیے ہوئے ہیں وبصوم میں نے ماہ رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی۔ یہ الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نیت کل آنے والے دن کی کر رہا ہے۔ علامہ ابن منظور رقمطراز ہیں:
(اصل الغد وهو اليوم الذى ياتى بعد يومك)(لسان العرب 10/26)
غد کا اصل یہ ہے کہ: وہ دن جو تیرے آج کے دن کے بعد ہو گا۔ مصباح اللغات 593 میں ہے کہ: آئندہ کل دور کا دن جس کا انتظار ہو۔ نیز دیکھیں مجمع بہار الانوار 4/17 وغیرہ۔
لہذا یہ الفاظ معنوی اعتبار سے بھی درست معلوم نہیں ہوتے۔
والله اعلم وعلمه اتم واكملارشاد باری تعالیٰ ہے:
"روزہ رات کو پورا کرو۔ یعنی رات ہوتے ہی روزہ افطار کر دو، تاخیر مت کرو۔"
لیل کی ابتداء غروب آفتاب سے ہوتی ہے۔ علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی رقمطراز ہیں:
" اليل والليلاة: من مغرب الشمس الى طلوع الفجر الصادق او الشمس " (القاموس المحیط طبع جدید/1364)
"رات غروب شمس سے لے کر فجر صادق کے طلوع ہونے تک یا طلوع شمس تک ہے۔ علامہ ابن منظور الافریقی فرماتے ہیں: مبدئه من غروب الشمس لیل کی ابتدا غروب شمس سے ہے۔"
(لسان العرب 12/378) نیز دیکھیں المعجم الاوسط/850)
ائمہ لغات کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ لیل کی ابتداء غروب آفتاب سے ہوتی ہے لہذا جوں ہی سورج غروب ہو روزہ افطار کر لیا جائے، تاخیر نہ کی جائے کیونکہ تاخیر سے روزہ افطار کرنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ابوداؤد، کتاب الصوم، باب ما یستحب من تعجیل الفطر (2353) ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی تعجیل الافطار (1698) ابن خزیمہ (2060) ابن حبان (889) مستدرک حاکم 1/431)
"دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہودونصاریٰ افطاری کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔"
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ دیر سے کھولنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔ اور ان کے متبعین کا روزہ موجودہ دور میں بھی مسلمانوں سے دس یا پندرہ منٹ بعد ہی افطار ہوتا ہے۔ کئی لوگ افطاری کے لیے سائرن کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور سائرن بھی غروب آفتاب کے بعد دیر سے بجایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں یاد رہے کہ عبادات کے لیے سائرن بجانا بھی یہودونصاریٰ کا عمل ہے۔ اہل اسلام کے ساتھ اس عمل کا کوئی تعلق نہیں بلکہ غروب آفتاب کے ساتھ ہی روزہ کھول دینا چاہیے۔
(بخاری، کتاب الصوم، باب تعجیل الافطار (1958) مسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور (1098)
"سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے بھلائی سے رہیں گے۔"
(بخاری، کتاب الصوم (1954) مسلم، کتاب الصیام (1100)
"عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات ادھر سے آ جائے اور دن ادھر سے پیٹھ پھیر جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول دے۔"
(موارد الظمآن (891)
"سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت ہمیشہ میری سنت پر رہے گی جب تک روزے کی افطاری کے لیے ستاروں کا انتظار نہیں کرے گی۔"
مندرجہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے واضح ہوا کہ افطاری کا وقت غروب آفتاب ہے اس لیے روزہ سورج غروب ہوتے ہی افطار کر دیں، دیر نہ کریں۔
(ابوداؤد، کتاب الصوم (2357) مستدرک حاکم 1/422، دارقطنی 2/1185 سے حاکم و ذھبی نے صحیح کہا ہے اور دارقطنی نے اس کی سند کو حسن کہا۔
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو کہتے: "پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہو گیا۔"
نیز (اللهم لك صمت وعلى رزقك افطرت) یہ دعا مرسل روایت میں ہے اور مرسل محدثین رحمۃ اللہ علیہم کے ہاں ضعیف کی اقسام سے ہے۔
(مشکوۃ (1990) مسند احمد 4/17-18، 214، ابوداؤد، کتاب الصوم، باب ما یفطر علیہ (2355) ترمذی، کتاب الزکوۃ (658) ابن ماجہ (1699) دارمی (1708) موارد الظمآن (892)
"سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزہ کھولے تو وہ کھجور سے کھو لے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے روزہ کھولے اس لیے کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔"
(ابوداؤد (2356) ترمذی (696) دارقطنی 2/185 مستدرک حاکم 1/432 المحلی لابن حزم 7/31)
"انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے تھے اگر تازہ کھجوریں دستیاب نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں کھا کر افطار کرتے اگر وہ بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے۔"
(موارد الظمآن (890) مسند ابی یعلی 6/424 (3792)
"انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو افطاری سے پہلے مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ایک گھونٹ پر ہی افطار کرتے۔"
مندرجہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ کھجور کے ساتھ روزہ کھولنا بہتر ہے اور اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کر لیں۔ روزہ کی وجہ سے جسم میں نقاہت و کمزوری واقع ہوتی ہے۔ کھجور سے جسم کو تقویت ملتی ہے۔ کھجور نہایت مفید اور مقوی غذا ہے۔
(شرح السنۃ (1819) 6/377 شعب الایمان للبیہقی، باب فی الصیام (3953) 3/418، ابن حبان (1619)
"زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے روزہ دار کو افطار کروایا یا غازی کو سامان جہاد دیا تو اس کے لیے اسی کی مثل اجر ہے۔"
یعنی وہ امور جو روزے کی حالت میں سر انجام دینے جائز ہیں اور ان کے کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا:
(1) مسواک کرنا۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب سواک الرطب والیابس للصائم ص 381 طبع دارالسلام)
(2) غسل کرنا۔ (بخاری، باب اغتسال الصائم ص 380، ابوداؤد (2365)
(3) بیوی کا بوسہ لینا اگر اپنے اوپر قابو رکھ سکے۔
(بخاری، باب القبلۃ للصائم ص 380، ابوداؤد، باب القبلہ للصائم (2382-2385)
(4) بھول کر کھا پی لینا۔ (بخاری، باب الصائم اذا اکل او شرب ناسئیا ص 381)
(5) سحری کھا کر غسل جنابت کرنا۔ (بخاری، باب الصائم یصبح جنبا ص 379)
(6) سینگی لگوانا یعنی بطور علاج جسم سے خون نکلوانا۔
(7) اور قے آ جانا۔ (بخاری، باب الحجامۃ والقی للصائم ص 383)
(8) کنگھی کرنا اور تیل لگانا۔ (بخاری، باب اغتسال الصائم ص 380)
(9) سرمہ لگانا۔ (بخاری، باب اغتسال الصائم ص 380)
(10) بھیگا ہوا کپڑا سر پر ڈالنا۔ (بخاری، باب اغتسال الصائم ص 380)
(11) ہنڈیا سے نمک وغیرہ چکھنا۔ (بخاری، باب اغتسال الصائم ص 380)
(12) حلق میں مکھی وغیرہ کا داخل ہو جانا۔
(بخاری، باب الصائم اذا اکل او شرب ناسئیا ص 381)
(1) جھوٹ اور برے اعمال۔ (بخاری، 1903)
(2) مبالغے سے ناک میں پانی چڑھانا۔ (ابوداؤد، 2366)
(3) شہوت انگیز گفتگو کرنا اور شوروغوغا۔ (بخاری، 1904) مسلم، (1151)
(4) بیوی سے بغل گیر ہونا۔ (ابوداؤد (2387) بیہقی 4/231
وہ امور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
(1) قصدا قے کرنا۔ (ابوداؤد، 2381)
(2) جان بوجھ کر کھانا پینا۔
(بخاری، کتاب الصوم، باب الصائم اذا اکل او شرب ناسئیا ص 381)
(3) جماع کرنا۔ (بخاری، باب اذا جامع فی رمضان ص 382)
(4) حیض و نفاس۔ (بخاری، کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم (304)
جو آدمی روزے کی حالت میں بیوی سے صحبت کر بیٹھے اس کے لیے کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک غلام آزاد کرے اگر یہ طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اگر یہ نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ (بخاری: 1936)
یعنی ایسے امور جن کے پیش آ جانے سے روزہ ترک کر سکتے ہیں:
(1) بیماری۔
(2) سفر۔ (البقرۃ: 184، بخاری، باب الصوم فی السفر والافطار ص 383)
(3) حمل۔
(4) رضاعت۔
(ابوداؤد (2408) ترمذی 4/94، 95 نسائی (2275) ابن ماجہ (1668'1667)
(5) شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا آدمی جو ضعف کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکے۔
(البقرۃ: 184، دارقطنی 2/205 نیز شرح السنۃ، باب الرخصۃ فی الافطار للحامل والمرضعہ 6/315، المنتقیٰ لابن جارود (381)
لفظ تراویح علماء کا ایک اصطلاحی نام ہے ورنہ احادیث رسول میں کہیں بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ اسے حدیث کی رو سے قیام اللیل یا صلوۃ اللیل جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تین دن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ اتفاقی قیام کیا اس کو تراویح کا نام دیا گیا۔ یہ بات احناف کے ہاں بھی مسلم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ذوق دیکھا کہ وہ کثرت کے ساتھ اس نماز میں شریک ہو رہے ہیں تو آپ نے جماعت کو ترک کر دیا اور فرمایا:
"مجھے تم پر صلوٰۃ اللیل کی فرضیت کا ڈر ہے۔"
طحاوی 1/242 میں قیام اللیل کے الفاظ ہیں۔ بہرکیف اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا جو آپ نے تین رات جماعت کروائی تھی اسے صلوٰۃ اللیل یا قیام اللیل ہی کہا گیا ہے لہذا قیام اللیل کی تعداد میں مروی تمام صحیح احادیث تراویح کی تعداد پر دلالت کرتی ہیں۔
(بخاری (2009) کتاب صلاۃ التراویح)
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے گئے۔"
(موارد الظمآن (19) مسند بزار 1/22 (25)
"عمرو بن مرۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ اگر میں اس بات کی شہادت دوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچ نمازیں ادا کروں، زکوٰۃ ادا کروں، رمضان کے روزے رکھوں اور اس کا قیام کروں تو میں کن لوگوں میں سے ہوں گا؟ تو آپ نے فرمایا: صدیقین اور شہداء میں سے۔"
مذکورۃ الصدر احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ قیام رمضان کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف کر کے اپنے نیک بندوں، صدیقین اور شہیدوں میں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت خاص نازل فرما کر ہمارا بھی حشر ان لوگوں کے ساتھ کرے۔ آمین! تراویح کا وقت عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے لے کر فجر تک ہے، کسی بھی وقت میں ادا کی جا سکتی ہے۔
یہ گیارہ رکعات مسنون نماز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا۔ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمی بیشی بھی کر لیتے تھے۔ احلہ علماء احناف کا بھی یہی مؤقف ہے کہ گیارہ رکعات مسنون ہیں۔
تراویح کی مفصل بحث اور مخالفین کے دلائل کا جائزہ دیکھنے کے لیے ہماری کتاب "مقالات ربانیہ" اور ہمارا اشتہار بعنوان "بجلی آسمانی برملا حقانی" کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں صرف ایک حدیث درج کرتا ہوں:
(صحیح بخاری، کتاب صلاۃ التراویح (2013) مؤطا امام محمد شاگرد امام ابو حنیفہ، باب قیام شھر رمضان وما فیہ من الفضل/142 طبع قدیمی کتب خانہ، کراچی)
"ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان المبارک میں نماز (تراویح) کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان آپ گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول مبارک یہی تھا۔ اسے تمام محدثین رحمۃ اللہ علیہم تقریبا تراویح کے بیان میں لائے ہیں۔"
اعتکاف کے لفظی معنی کسی چیز پر جم کر بیٹھ جانا اور نفس کو اس کے ساتھ لگائے رکھنا ہے اور شرعا تمام دنیاوی معاملات ترک کر کے عبادت کی نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی خاطر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے اعتکاف بیٹھنے والے کو معتکف اور جائے اعتکاف کو معتكف کہا جاتا ہے۔ اعتکاف سال کے اندر کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شوال کے مہینہ کا اعتکاف بھی ثابت ہے لیکن آپ رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف بیٹھتے تھے۔ آپ نے رمضان کے درمیانے عشرے کا بھی اعتکاف کیا ہے لیکن افضل آخری عشرے کا ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
(بخاری: 2026)
"عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کر دیا پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں (رضی اللہ عنھن) اعتکاف کرتی تھیں۔"
"ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانے عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال آپ نے حسب معمول اعتکاف لیا۔ جب اکیسویں رات ہوئی۔ یہ وہ رات تھی جس کی صبح کو آپ اپنے اعتکاف سے نکلتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف بیٹھے۔"
الحدیث (ابن ماجہ (1771) ابوداؤد (2464)
"سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنی جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔"
اعتکاف کے طریقے میں اہل علم کے دو اقوال ہیں: (1) ایک قول یہ ہے کہ اعتکاف مسنون آخری عشرے کا ہے اور آخری عشرے کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آ جائے۔ رات بھر تلاوت قرآن، ذکر الٰہی اور تسبیح و تہلیل و قیام میں مصروف رہے اور نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
(2) دوسرا مؤقف یہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے آخری عشرے کا اعتکاف کیا اور دوسری حدیث میں یہ ہے: اعتکاف کی جگہ میں آپ فجر پڑھ کر داخل ہو جاتے لیکن اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ اکیس یا بیس کی صبح ہے بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تاکہ آخری عشرے کی 21 ویں کی طاق رات جائے اعتکاف میں گزارے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ جب آپ نے صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا۔
کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ اعتکاف کر کے اپنا بوریا بستر باندھ کر گھروں کو چلے گئے تو آپ نے فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے اور یہ بیس رمضان کو فرمایا تھا۔ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آخری عشرے کی اکیسویں رات بعد از غروب آفتاب شروع ہوتی ہے۔ آپ نے بیسویں کے دن کا صحابہ رضی اللہ عنھم سے اعتکاف کروایا حالانکہ آپ انہیں رات کو بھی بلا سکتے تھے اور کہہ دیتے کہ تم نے اعتکاف کے مقام پر داخل ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: اگر بیس کی صبح کو مسجد میں آ جائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے تیار ہو جائے گا اور جائے اعتکاف سے مانوس بھی ہو جائے گا اس طرح اس کی اکیسویں رات معتکف میں گزرے گی جب کہ دوسرے مؤقف کے لحاظ سے ان کی اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزرے گی جو ایک نقص بھی ہے لہذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آئے اور نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ صرف آخری عشرے سے 12 گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔
مؤقف ثانی بر احتیاط ہے وگرنہ اعتکاف تو ایک دن یا رات کا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی تو آپ نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کر لو۔"
معلوم ہوا کہ اعتکاف ایک عشرے سے کم کا بھی ہو سکتا ہے۔
ہر عبادت کے لیے نیت لازمی ہے جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ: (إنما الأعمال بالنيات) "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" (بخاری)
لیکن اس کے لیے زبان سے کوئی تلفظ ثابت نہیں۔ یہ دل کا فعل ہے۔ بعض لوگوں نے مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لیے " نويت سنة الاعتكاف " (میں نے اعتکاف کی سنت کی نیت کی) کے الفاظ مختص کر رکھے ہیں یہ غلط ہیں۔
عورتیں اگر اعتکاف بیٹھنا چاہیں تو وہ بھی مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھیں گی۔ گھر میں اعتکاف کرنے کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور تم ان عورتوں سے جماع نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے والے ہو۔" اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعتکاف مسجد میں کیا جاتا ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے مسجد میں اعتکاف کرنے کی حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔
(1) حاجات ضروریہ کے لیے مسجد سے نکلنا۔
(بخاری، باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد، ص 400)
(2) مسجد میں خیمہ لگانا۔ (بخاری، باب الاخبیۃ فی المسجد ص 400)
(3) اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کے لیے مسجد میں آ سکتی ہے۔ اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں گھر چھوڑنے تک ساتھ جا سکتا ہے۔
(بخاری، باب ھل یخرج المعتکف لحواجہ ص 400)
(4) استحاضہ والی عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔
(بخاری، باب اعتکاف المستحاضہ ص 401)
(5) معتکف مسجد سے باہر اپنا سر نکال سکتا ہے اور اس کی بیوی حالت حیض میں بھی ہو تو اس کو کنگھی کر سکتی ہے اور اس کا سر دھو سکتی ہے۔ (بخاری (2028، 2031)
(1) جماع۔ (البقرۃ: 187) ابن ابی شیبہ 3/29، عبدالرزاق 4/363)
(2) بیمار پرسی کو نہ جائے۔
(3) جنازے میں شریک نہ ہو۔
(4) ضروری حاجت کے بغیر نہ نکلے۔ (ابوداؤد (2473)، بیہقی 4/317)
آخری عشرہ چونکہ شوال کا چاند دیکھنے کے ساتھ یا رمضان کے تیس دن پورے ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے لہذا اس کے ساتھ ہی اعتکاف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ معتکف آخری عشرہ پورا ہوتے ہی اعتکاف ختم کر دے۔ ہمارے ہاں جو معاشرے میں یہ بات رائج ہے کہ اعتکاف سے اٹھنے والے کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں۔ اسپیشل اٹھانے کے لیے خاندان و برادری کے بڑے لوگ آ کر ملاقات کرتے ہیں یہ ساری باتیں بے دلیل ہیں۔
لیلۃ القدر کا معنی ہے عزت و شرف والی رات۔ چونکہ اس مبارک رات میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس وجہ سے اس رات کو شرافت و بزرگی، بڑائی اور مرتبہ حاصل ہے۔ قرآن مجید میں اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری سورۃ نازل فرمائی ہے جسے سورۃ القدر کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یقینا ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔ آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ہر قسم کے معاملات سر انجام دینے کو اللہ کے حکم سے فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔"
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یقینا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا۔ بےشک ہم ڈرانے والے ہیں اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ہماری جانب سے ہے اور ہم بھیجنے والے ہیں۔"
بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ کی مراد 15 شعبان کو قرار دیا ہے جسے عرف عام میں شب برات بھی کہتے ہیں لیکن یہ تفسیر درست نہیں ہے کیونکہ قرآن کی نص صریح سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ یہ قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ اسے ہی سورۃ دخان میں لیلۃ مبارکہ قرار دیا گیا ہے اور یہ رات رمضان المبارک میں ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ماہ رمضان وہ جس میں قرآن نازل کیا گیا۔"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا اور دوسری آیات سے معلوم ہوا کہ وہ اس ماہ کی اس رات میں نازل ہوا ہے جسے شب قدر کہتے ہیں۔ یہ رات بڑی بابرکت ہے۔
ایک تو اس میں قرآن جیسی کتاب ہدایت کا نزول ہوا۔ دوسرے اس میں فرشتوں اور روح الامین جبرئیل علیہ السلام کا نزول۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس میں عبادت ہزار مہینے (83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر قرار دی گئی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(بخاری، کتاب فضل لیلۃ القدر 2014)
"جس نے شب قدر کا قیام ایمان و ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے گئے۔"
(بخاری، کتاب فضل لیلۃ القدر 2017)
"عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور ان راتوں میں سے کوئی رات متعین نہیں۔
یہ بعض دفعہ اکیسویں رات کو بھی پائی گئی ہے۔ (بخاری (1016) مسلم (1167) اور بعض دفعہ ستائیسویں رات کو بھی۔ مسلم (762)
(مسلم (1175) مشکوٰۃ (2089)
"سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت کی جس قدر محنت و کوشش کرتے وہ اس کے علاوہ کسی وقت میں نہ کرتے تھے۔"
(بخاری، کتاب فضل لیلۃ القدر: 2024)
"عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے۔"
(مشکوٰۃ (2091) مسند احمد 6/171،182،183،208،258، ترمذی (3513) ابن ماجہ (3850)
"عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو میں اس میں کیا کہوں؟ تو آپ نے فرمایا: تو کہہ: "اے میرے اللہ یقینا تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے۔"
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(صبيحة ليلة القدر تطلع الشمس لا شعاع لها كانها طشت حتى ترتفع) (مسلم (762) عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ)
"شب قدر کی صبح کو سورج بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہوتا ہے جیسا کہ تھالی (پلیٹ)۔"
ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسلم (1170) عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
"تم میں سے کون اسے یاد رکھتا ہے (اس رات) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ۔
تیسری حدیث میں ہے:
(مسند بزار 1/486، مسند طیالسی/349، ابن خزیمہ 3/231، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ)
"شب قدر آسان و معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔ اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہو جاتی ہے۔ شیخ سلیم الہلالی اور شیخ علی حسن عبدالحمید نے ("صفۃ صوم النبی"/90) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔"
مذکورہ بالا آیات و احادیث صحیحہ صریحہ سے شب قدر کی فضیلت بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے لہذا اس عظیم رات میں قیام، تلاوت قرآن، کثرت دعا جیسے امور بخشش کو ضرور اختیار کیجیے اور اپنی بخشش کا سامان پیدا کر لیں وہ انسان کتنا ہی بدنصیب ہو گا جسے یہ ماہ مبارک نصیب ہو لیکن اس نے اپنی بخشش اور جہنم سے رہائی نہ کروائی۔
رمضان المبارک کے روزوں میں بسا اوقات ہم سے کوتاہی و لغزش صادر ہو جاتی ہے جس کے ازالے کے لیے صدقہ فطر فرض قرار دیا گیا ہے اور اس کی ادائیگی سے غرباء و مساکین، فقراء و حاجت مندوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔
(ابوداؤد، کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ الفطر (1609)، بیہقی 4/163، مستدرک حاکم 1/409 دارقطنی 2/138)
"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزے دار کو لغو اور شہرت انگیز گفتگو سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا اس کا صدقہ قبول ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔"
(مشکوٰۃ (1815) بخاری، کتاب الزکاۃ (1503) مسلم، کتاب الزکاۃ (984)
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں کے غلام آزاد مرد عورت چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے اور لوگوں کے نماز عید کی طرف نکلنے سے پہلے اس کی ادائیگی کا حکم فرمایا۔"
(مشکوٰۃ (1816) بخاری (1506) مسلم (985)
"ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم عہد نبوی میں صدقہ فطر ایک صاع گندم یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقہ نکالا کرتے تھے۔"
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام اور جو چیز زیر استعمال ہو اس میں سے نکالنا چاہیے اس کی مقدار ایک صاع ہے۔ صاع کا وزن سوا دو سیر ہے اور اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہیے۔ اس کی ادائیگی نماز عید سے چند دن پہلے بھی ہو سکتی ہے۔ صحیح بخاری (1511) میں ہے:
(وَكَانُوا يُعطُونَ قَبلَ الفِطرِ بِيَومٍ أَو يَومَينِ) "صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نماز عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر دیتے تھے۔"
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جب صدقہ فطر پر محافط مقرر کیا گیا اور شیطان تین راتیں مسلسل اس ڈھیر سے چوری کے لیے آتا رہا۔ بالآخر اس نے آیت الکرسی کے بارے میں بتا کر جان چھڑائی۔ ملاحظہ ہو مشکوٰۃ (2123) بخاری (2311) یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صدقہ فطر عید سے چند روز قبل بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔
رمضان المبارک اور قرآن مجید کا آپس میں گہرا ربط و تعلق ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید کا نزول رمضان المبارک میں ہوا ہے شاید اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرتے تھے۔
(بخاری، کتاب الصوم (1902)
"جبریل علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات آخر ماہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن مجید سناتے تھے۔"
(بخاری، کتاب فضائل القرآن: 4998)
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر سال ایک مرتبہ قرآن حکیم پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال فوت ہوئے تو انہوں نے دو مرتبہ آپ پر قرآن حکیم پڑھا۔"
لہذا ہر مسلمان بھائی کو رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہیے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطایت فرمائے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل علیہ السلام ملاقات کرتے تب بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات کے وقت رسول مکرم امام اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تیز چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔"
لہذا ہمیں بھی رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کثرت سے کرنا چاہیے۔ مجاہدین، مدارس اسلامیہ، فقراء و مساکین، یتیم و بیواؤں، محتاج و تنگ دست، افلاس زدہ، خستہ حال، کم مایہ، مفلوک الحال، برہنہ پا، قلاش و بے نوا افراد کی بھرپور مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں اور عید الفطر کی خوشیوں میں بآسانی شرکت کر سکیں۔
رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت سے بہرہ مند ہونا حج کے اجر و ثواب کے برابر ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(مسلم، کتاب الحج، باب فضل العمرۃ فی رمضان: 1256)
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت سے فرمایا: تمہیں ہمارے ساتھ حج کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ اس نے کہا ہمارے پاس پانی لانے والے صرف دو اونٹ ہیں۔ ایک اونٹ پر میرا شوہر اور بیٹا حج کے لیے گئے ہیں اور ایک ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں جس پر ہم پانی لاد کر لاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جب رمضان المبارک آ جائے تو عمرہ کر لینا اس لیے کہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔"
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب