سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) تدفین کے بعد میت کے گھر بیٹھنا

  • 21394
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 980

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ مردہ کی تدفین کے بعد وارثین مردہ کے گھر کے باہر چٹائیاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور تعزیت کے لیے آنے والے فاتحہ خوانی کے لیے کہتے ہیں اور تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور اسی طرح تین دن ایسے ہی چٹائیاں بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ تعزیت کے لیے آتے رہتے ہیں اور وارثین مردہ تمام کاروبار چھوڑ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس کا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے کر راہنمائی فرمائیں۔ نیز کتاب و سنت کی روشنی میں تعزیت اور لوگوں کا صحیح طریقہ بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (محمد امتیاز خان لغاری۔ محمد طارق سہیل لغاری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی آدمی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد تعزیت کے لیے کسی خاص جگہ، گھر، مسجد اور مقبرہ وغیرھا کا تعین کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

(كنا نعد الاجتماع الى اهل الميت وصنيعة الطعام بعد دفنه من النياحة)

ہم میت کے دفن کے بعد اھل میت کی طرف اکٹھا ہونا اور کھانا پکانا نوحہ میں سے شمار کرتے تھے۔

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اہل میت کے ہاں بعض امور سے اجتناب کے بارے لکھتے ہوئے کہتے ہیں:

" الاجتماع للتعزية فى مكان خاص كالدار او المقبرة او المسجد "

کسی خاص مکان جیسے گھر یا مقبرہ یا مسجد میں تعزیت کے لیے اجتماع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (احکام الجنائز ص: 210)

پھر اس کے بعد جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ والی مذکورہ حدیث بیان کرتے ہیں۔

اور اس حدیث کی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(واكره الماتم وهى الجماعة وان لم يكن لهم بكاء فان ذلك يجدد الحزن ويكلف المؤنة مع ما مضى فيه من الاثر)

(کتاب الام، باب القیام للجنازۃ 1/318)

میں ماتمی اجتماع کو مکروہ سمجھتا ہوں اگرچہ ان کے لیے آہ و بکاء نہ ہو۔ اس لیے کہ یہ چیز غم کو تازہ کرتی ہے اور تکلیف کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے بارے میں حدیث گزر چکی ہے۔

امام اسحاق بن ابراہیم بن ھانی رحمۃ اللہ علیہ جو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اجل تلامذہ میں سے تھے کہتے ہیں:

(سئل الامام احمد رحمه الله عن البيتوتة عند اهل الميت قال: أكرهه) (مسائل ابن ھانی: 961)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اہل میت کے ہاں رات بسر کرنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔

امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ "شرح الوجیز" میں تعزیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

" هى سنة ويكره الجلوس لها "

تعزیت کرنا سنت ہے اور اس کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے۔

(روضۃ الطالبین 2/144)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:

(أَمَّا الْجُلُوسُ لِلتَّعْزِيَةِ ، فَنَصَّ الشَّافِعِيُّ وَالْمُصَنِّفُ وَسَائِرُ الْأَصْحَابِ عَلَى كَرَاهَتِهِ ... قَالُوا : بَلْ يَنْبَغِي أَنْ يَنْصَرِفُوا فِي حَوَائِجِهِمْ ، فَمَنْ صَادَفَهُمْ عَزَّاهُمْ ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فِي كَرَاهَةِ الجلوس لها) (المجموع 5/306)

خلاصہ کلام اس عبارت کا یہ ہے کہ امام شافعی اور صاحب کتاب اور دیگر اصحاب شوافع تعزیت کے لیے بیٹھنا مکروہ سمجھتے تھے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اہل میت اپنی ضروریات اور کاموں میں لگے رہیں اور جو آدمی انہیں ملے ان سے تعزیت کرے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے تعزیت کے لیے بیٹھنے کی کراہت میں کوئی فرق نہیں۔ یعنی تعزیت کی خاطر عورتیں اکٹھی ہو کر بیٹھیں یا مرد دونوں کے لیے مکروہ ہے۔

امام ابو المظفر ابن ھبیرۃ لکھتے ہیں:

(فاما الجلوس للتعزية فقال مالك والشافعى و احمد هو مكروه ولم نجد عن ابى حنيفه نصا فى هذا)

(الافصاح عن معانی الصحاح 1/151)

تعزیت کے لیے بیٹھنے کو امام مالک، امام شافعی اور امام احمد نے مکروہ قرار دیا ہے اور امام ابو حنیفہ سے اس کے متعلق ہمیں کوئی نص نہیں ملی۔ مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ تعزیت کے لیے جو رواجی طریقہ موجود ہے، اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث، اثر صحابی اور ائمہ اربعہ وغیرھم سے کس طرح کا جواز کہیں بھی مروی نہیں بلکہ ائمہ محدثین کے ہاں یہ مکروہ ہے اور جب مطلق طور پر مکروہ کا لفظ بولا جائے تو حرام ہی مردار ہوتا ہے جیسا کہ کتب فقہ میں مرقوم ہے۔ نیز تعزیت کے لیے تین دنوں کا تعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ عوام میں جو یہ روایت متداول ہے کہ " لا عزاء فوق ثلاث " تین دنوں سے اوپر تعزیت نہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں اور یہ صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے کیونکہ صحیح حدیث میں تین دنوں کے بعد تعزیت ثابت ہے۔

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

(أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثا أن يأتيهم ثم أتاهم .... الحديث)

بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم آل جعفر کے ہاں آنے سے تین دن تک رکے رہے پھر اس کے بعد ان کے ہاں آئے۔

(ابوداؤد، کتاب الترجل، باب فی حلق الراس (4192) مسند احمد 3/279 (1750) طبقات ابن سعد 4/36-37، نسائی کبریٰ (8604) الآحادو المثانی (434) سنن النسائی (5242)

معلوم ہوا کہ تعزیت کے لیے تین دن خاص نہیں ہیں بلکہ تین دنوں کے بعد بھی جب مناسب خیال کرے، تعزیت کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے گھر والوں کے ہاں آنے سے تین دن تک رکے رہے پھر تشریف لائے۔ تعزیت ایسے الفاظ سے کرے جو اہل میت کے لیے تسلی کا باعث ہوں اور ان کے غم و دکھ کو ہلکا کریں اور انہیں صبر و تحمل کی نصیحت کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے تعزیت کرتے تو اسے صبر و تحمل اور نیکی کے کاموں کی تلقین کرتے۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی بیٹی نے پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا وفات کے قریب ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔

آپ نے سلام بھیجا اور کہا:

(ان الله ما اخذ وله ما اعطى وكل عنده بأجل مسمى)

یقینا اللہ کے لیے ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے عطا کیا اور ہر چیز کا اس کے ہاں وقت مقرر ہے۔ اسی لیے تم صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔

(صحیح البخاری، کتاب الجنائز (1284) مسند طیالسی (646) مسلم (923) ابوداؤد (3125) ابن ماجہ (1588) نسائی (1867) ابن حبان (461) شرح السنۃ (1527) 5/426)

یہ تعزیت کے الفاظ اگرچہ قریب المرگ کے بارے وارد ہوئے ہیں لیکن مرنے والے کے حق میں زیادہ اولیٰ ہیں۔

اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: (احسن ما يعزى به) یہ حدیث زیادہ بہتر ہے، ان کلمات کے بارے میں جن سے تعزیت کی جاتی ہے۔ (کتاب الاذکار رقم (467) اس لیے بہتر تو ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ تعزیت کرے اور اگر یہ الفاظ یاد نہ ہوں تو جو الفاظ تسلی و صبر کے لیے مناسب سمجھے کہہ دے۔ سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین سے مختلف حسب حال الفاظ منقول ہیں جن کی تفصیل کے لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الاذکار ص 199 تا ص 201 طبع اولیٰ بیروت ملاحظہ ہو۔

اور لکھتے ہیں

(واما لفظة التعزية فلا حجر فيه فبأى لفظ عزاه حصل)

تعزیت کے لیے الفاظ میں کوئی تنگی نہیں جس بھی لفظ سے تعزیت کرے مقصود حاصل ہو جائے گا۔

نیز دیکھیں احکام الجنائز للشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ رقم المسئلہ 109 ص 206۔

لہذا اہل میت تین دن تک چٹائیاں بچھا کر اس غرض سے نہ بیٹھے رہیں کہ تعزیت کے لیے لوگ آئیں گے بلکہ وہ اپنے کام کاج کریں۔ جو شخص بھی تعزیت کے لیے ملے، اس سے ہم کلام ہوں اور تعزیت کرنے والے مناسب حال الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے صبر و رضا کی تلقین کریں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ246

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ