سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) ایصال ثواب میں شبینہ کرانا

  • 21392
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 760

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شبینہ کرانا یعنی کسی فوت شدہ آدمی کے ایصال ثواب میں ایک ہر رات میں قرآن پاک کا ختم کرنا جائز ہے۔ (حوالدار محمد اقبال نڈالہ سندھواں گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو ثواب پہنچانے کی غرض سے قرآن حکیم پڑھنا اور پڑھوانا رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام مشروع ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ضرور کرتے خصوصا جب عائشہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی محبوب تھیں انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ جب وہ قبروں کی زیارت کو آئیں تو کیا کہیں۔ آپ نے انہیں سلام و دعا سکھلائی اور یہ نہیں سکھلایا کہ تم قرآن حکیم پڑھو یا فلاں فلاں سورۃ پڑھ کر میت کو بخش دو اور یہ موقعہ بیان و وضاحت کا تھا اور اصول فقہ کا بھی مشہور قاعدہ ہے تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز ، ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ یعنی جب ایک موقعہ و محل کسی چیز کی تعلیم دینے کا ہے اور ضرورت بھی اس بات کی متقاضی ہے تو ایسے وقت پر بیان و توضیح نہ کرنا درست نہیں۔ اور اس حدیث کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ "

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ یقینا جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔

(صحیح مسلم، ترمذی، نسائی فضائل قرآن، شعب الایمان، مسند احمد از ابوھریرہ رضی اللہ عنہ)

اس حدیث میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ قبریں قراۃ قرآن کا محل نہیں۔ اس لیے قرآن گھر میں پڑھنے کے لیے بتایا گیا۔ اگر میت کے لیے قرآن پڑھنا مشروع ہوتا تو اس کا زیادہ مناسب محل قبرستان تھا لیکن اس کی اجازت شرع میں وارد نہیں ہوئی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ قبر کے نزدیک قرآن پڑھنا کیسا ہے تو انہوں نے فرمایا جائز نہیں۔ (مسائل ابی داؤد ص 185)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" ولا يحفظ عن الشافعى نفسه فى هذه المسئله كلام وذلك لأن ذلك كان عنده بدعة وقال مالك ما علمت احدا يفعل ذلك فعلم ان الصحابه والتابعين ما كانوا يفعلونه "

(اقتضاء الصراط المستقیم ص 182)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسئلہ کے جواز پر کوئی کلام محفوظ نہیں اور یہ اس لیے کہ یہ کام ان کے ہاں بدعت تھا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں کسی ایک شخص کے بارے میں بھی نہیں جانتا کہ وہ کام کرتا ہو پس معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین یہ کام نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے "الاختیارات العلمیہ" میں میت پر مرنے کے بعد قرآن پڑھنا بدعت لکھا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ میت کی خاطر قرآن پڑھنا خواہ کسی گھر میں ہو یا قبرستان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ میت کی طرف سے صدقہ، نفلی حج اور اس کے فوت شدہ روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے دعا بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کا نفع موحد میت کو ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ "اختیارات العلمیہ" ص 54 پر رقمطراز ہیں:

" ولم يكن من عادة السلف اذا صلوا تطوعا او صاموا تطوعا او رحجوا تطوعا او قرؤا القرآن يهدون ذلك الى اموات المسلمين فلا ينبغى العدول عن طريق السلف فانه افضل و اكمل "

سلف صالحین کی یہ عادت نہیں تھی کہ جب وہ نفلی نماز، روزہ یا حج کرتے ہوں یا قرآن پڑھتے ہوں تو اس کا ثواب مسلمان مردوں کو ہدیہ کرتے ہوں اور سلف کے راستے سے نکلنا اور عدول کرنا درست نہیں اس لیے کہ وہ طریقہ سب سے زیادہ فضیلت والا اور کامل ترین ہے۔

لہذا اسلاف یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طریقہ کار کو مدنظر رکھا جائے اور مصنوعی امور سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔ ایسی راہ نہ اپنائی جائے جو سلف صالحین کے طریق سے ہٹی ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ خود ساختہ اور جعلی طریقوں سے ہر مسلم کو محفوظ فرمائے آمین۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ239

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ