کیا نماز جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ ہی رفع یدین کرنی چاہیے یا باقی تکبیرات کے ساتھ بھی۔ اس کے بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟
نماز جنازہ میں تکبیرات کے ساتھ عدم رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح مرفوع روایت موجود نہیں البتہ بعض موقوف صحیح روایات میں جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ جو لوگ صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنے کے قائل ہیں وہ درج ذیل دو روایتیں پیش کرتے ہیں۔
(جامع الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی رفع الیدین علی الجنازۃ (1077) سنن الدارقطنی (1813) السنن الکبری للبیہقی 4/38 طبقات الاصبھانیین لابی الشیخ ص: 262 بحوالہ احکام الجنائز للالبانی ص: 147)
"ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے پر تکبیر کہی پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کھا۔ یہ روایت ضعیف ہے اس میں تین علتیں ہیں۔"
یحییٰ بن یعلی الاسلامی القطوانی کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: مضطرب الحدیث۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں۔ ليس بشئ محض ہیچ ہے۔ امام ابو حاتم فرماتے ہیں ضعیف الحدیث ہے قوی نہیں ہے۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں شیعہ میں سے کوفی ہے۔ امام بزار فرماتے ہیں اسانید میں غلطیاں کرتا ہے۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں ثقہ راویوں کے نام سے مقلوب روایات بیان کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ قلب اس سے واقع ہوا ہے یا اس سے بیان کرنے والے راوی ابو ضرار بن صروان دونوں نے جو روایتیں بیان کی ہیں۔ ان سے بچنا واجب ہے۔
(تھذیب التھذیب 6/192، المغنی فی الضعفاء 2/533، کتاب الضعفاء والمتروکین 3/206، لابن الجوزی میزان الاعتدال 4/415، الکامل فی ضعفاء الرجال 7/2688، الکاشف 2/379، تقریب، ص: 380) امام ابن القطان الفاسی نے بھی اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک وجہ یحییٰ بن یعلیٰ الاسلمی ابو زکریا القطوانی کو قرار دیا ہے (بیان الوھم والایھام 3/421)
دوسری علت یحییٰ بن یعلیٰ الاسلمی کا استاذ ابو فروہ یزید بن سنان ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام ابو حاتم، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام دارقطنی، امام جوزجانی، امام ابو زرعہ رازی، ازدی، امام حاکم اور عقیلی نے اسے ضعیف اور متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
(تھذیب 6/211'212، المغنی فی الضعفاء 2/538، میزان الاعتدال 4/427، تقریب 282، کتاب الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 3/210)
تیسری علت یہ ہے کہ اس کی سند میں امام زہری "عن" سے روایت کرتے ہیں اور یہ مدلس ہیں۔ مدلس کا عنعنہ مردود ہے لہذا ان تین علل کی وجہ سے مذکورہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس روایت کا ایک شاہد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بایں الفاظ پیش کیا جاتا ہے۔
(سنن الدارقطنی، کتاب الجنائز (1814) الضعفاء الکبیر للعقیلی 3/449، تحفۃ الاحوذی 4/191)
"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے پر پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔"
اس کی سند میں الفضل بن السکن الکوفی ہے جس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں۔ یہ غیر معروف ہے۔ امام دارقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(المغنی فی الضعفاء 2/191)
مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ عدم رفع یدین والی روایات درست نہیں ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
(التلخیص الحبیر 2/333، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
"دارقطنی نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ ادا کرتے تو پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے ان دونوں کی سندیں ضعیف ہیں اور اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔"
اب رہیں نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنے کی روایات۔ اس کے بارے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت مروی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(طبرانی اوسط (8412) 6/191، مجمع البحرین فی زوائد المعجمین (1282) 2/217 مجمع الزوائد (4154) 3/137)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں اور جنازوں پر تکبیر کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے، لیکن اس روایت کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ اس میں کئی ایک علل ہیں۔
1۔ امام طبرانی کے استاذ موسیٰ بن عیسی الجزری کے حالات نہیں ملے۔
2۔ موسیٰ بن عیسیٰ کا استاذ صہیب بن محمد بن عباد بھی مجہول ہے۔
3۔ عباد بن صہیب البصری متروک ہے۔
(المغنی فی ضعفاء الرجال 1/514 تقریب ص: 197) امام بخاری اسے منکر الحدیث قرار دیتے ہیں۔ (تھذیب 3/250'251) اور امام بخاری جسے منکر الحدیث قرار دیں اس سے روایت لینا جائز نہیں۔ (میزان 1/2)
لہذا یہ سند تو انتہائی ضعیف ہے البتہ امام دارقطنی نے بطریق:
(عمر بن شيبه حدثنا يزيد بن هارون عن يحيي بن سعيد عن نافع عن ابن عمر ان النبى صلى الله عليه وسلم كان اذا صلى على الجنازة رفع يديه فى كل تكبيرة واذا انصرف سلم) (علل الدارقطنی بحوالہ نصب الرایۃ التعلیق المغنی 2/275)
"عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ ادا کرتے تو ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے اور جب پھیرتے تو سلام کہتے تھے۔ اس کے بعد فرمایا ہے۔"
اسی طرح عمر بن شبہ نے اسے مرفوع بیان کیا ہے اور ایک جماعت نے اس کی مخالفت کی ہے انہوں نے یزید بن ھارون سے اسے موقوف روایت کیا ہے اور یہی درست ہے۔ (نصب الرایۃ 2/285، التلخیص الحبیر 1/333 ط جدید)
یزید بن ھارون کی یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں ثقات کی ایک جماعت نے متابعت کی ہے بعد نے متابعت تامہ اور بعض نے متابعت قاصرہ۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
(جزء رفع یدین (111) ص 195 مع جلاء العینین)
احمد بن یونس نے کہا ہمیں زہیر نے حدیث بیان کی اس نے کہا ہمیں یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی بےشک نافع نے اسے خبر دی بلاشبہ عبداللہ بن عمر جب نماز جنازہ ادا کرتے تو رفع یدین کرتے تھے۔ یہ اسناد انتہائی صحیح ہے اور شیخین کی شرط پر ہے اس میں زہیر بن معاویہ بن کدیج ثقہ اور ثبت نے یزید بن ہارون کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔
2۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں:
(المصنف، کتاب الجنازۃ، باب یرفع یدیہ فی التکبیر علی الجنازۃ، ص 2/181 دارالفکر، بیروت)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنازے پر ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ اس روایت میں محمد بن فضیل ثقہ نے یزید بن ھارون کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔
3۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
عبداللہ بن عمر جنازے پر ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو پھر بھی رفع یدین کرتے تھے، عبداللہ بن ادریس کی یہی روایت ابن ابی شیبہ کتاب الجنائز 3/180 ط دارالفکر بیروت بیہقی 4/44 میں بھی موجود ہے۔
4۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
(جزء رفع الیدین (109) ص: 194 مع جلاء العینین)
عبداللہ بن عمر جب جنازہ پر تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے تھے۔
5۔ امام عبدالرزاق اھل جزیرہ کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں اس نے کہا:
(سمعت نافعا يحدث ان ابن عمر كان يرفع فى التكبيرات الاربع على الجنازة) (عبدالرزاق 2/270 (6360)
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جنازہ پر چار تکبیروں میں رفع یدین کرتے تھے۔
6۔ اسی طرح امام شافعی نے کتاب الام 1/240 میں اور امام بیہقی نے معرفۃ السنن والآثار 2/26 میں شافعی کے طریق سے محمد بن عمر عن عبداللہ بن عمر بن حفص عن نافع عن ابن عمر اس روایت کو بیان کیا ہے۔
لیکن اس کے سند میں امام شافعی کا استاذ محمد بن عمر الواقدی کذاب اور اس کا استاذ عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہے۔ لیکن اوپر ذکر کردہ پہلے چاروں طرق کے تمام روات ثقہ و صدوق ہیں۔
اس لئے یہاں ان کا ضعف مضر نہیں۔ مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید بن ہارون کی متابعت کئی ثقہ راویوں نے اس روایت کو موقوف بیان کرنے میں کی ہے اور یزید بن ھارون سے ایک جماعت نے اس حدیث کو موقوف بیان کیا ہے اور عمر بن شبہ نے یزید بن ہارون سے اسے مرفوع بیان کیا۔
علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ امام دارقطنی کی بیان کردہ علت کے بارے میں فرماتے ہیں:
(والا ظهر عدم الالتفات الى هذه العلة لان عمر المذكور ثقة فيقبل رفعه لان ذلك زيادة من الثقة وهى مقبولة على الراجع عند ائمه الحديث ويكون ذلك دليلا على شرعية رفع اليدين فى تكبيرات الجنازة، والله اعلم)(تعلیق علی فتح الباری 3/190، ط دارالمعرفۃ،بیروت)
"اس علت کی طرف توجہ نہ کرنا، ظاہر ترین ہے۔ اس لئے کہ عمر ثقہ راوی ہے اس کا مرفوع بیان کرنا قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ ثقہ راوی کی زیادت ہے اور آئمہ حدیث کے نزدیک راجح مسلک کے مطابق زیادت ثقہ قبول کی جاتی ہے اور تکبیرات جنازہ میں رفع یدین کی مشروعیت کی یہ دلیل ہو گی، واللہ اعلم۔"
عمر بن شبہ جس نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔ امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: (هو صدوق صاحب عربية و ادب) یہ صدوق عربیت و ادب والا ہے۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں یہ ثقہ ہے۔ امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں درج کر کے مستقیم الحدیث قرار دیا ہے۔ خطیب بغدادی نے اسے ثقہ اور سیر اور لوگوں کے حالات کا عالم کہا ہے۔ مرزبانی نے معجم الشعراء میں اسے ادیب، فقیہ واسع الروایۃ اور صدوق و ثقہ لکھا ہے۔ مسلمہ نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔
محمد بن سھل نے اسے صدوق و ذکی قرار دیا ہے۔
(تھذیب 4/290'289، تاریخ بغداد 11/208، الجرح والتعدیل 6/116، تھذیب الاسماء واللغات للنووی 2/17، کتاب الثقات 8/446)
امام ابوذھبی فرماتے ہیں ثقہ ہے۔ (الکاشت 2/23 تذکرہ الحفاظ 2/77)
امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں: (صدوق)
(الجرح والتعدیل 6/116)
علامہ ابن العماد الحنبلی فرماتے ہیں:
(الحافظ العلامة الاخبارى الثقة) (شذرات الذھب 2/146)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمر بن شبہ الجمیری باتفاق ائمہ محدثین صدوق و ثقہ راوی ہے اور زیادت ثقہ قابل قبول ہوتی ہے۔ جب کسی حدیث کو بعض ائمہ مرفوع اور بعض موقوف روایت کریں تو اصول حدیث کی رو سے مرفوع کا حکم لگایا جاتا ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
"الصحيح بل الصواب الذى عليه الفقهاء والاصوليين ومحققو المحدثين انه اذا روى الحديث مرفوعا و موقوفا او موصولا ومرسلا حكم بالرفع والوصل لانها زيادة ثقة و سواء كان الرافع والواصل اكثر او اقل فى الحفظ والعدد"(شرح صحیح مسلم 1/256)
"صحیح بلکہ خالص حق بات یہ ہے جس پر فقہاء اصولیین اور محقق محدثین متفق ہیں کہ جب کوئی حدیث مرفوع اور موقوف روایت کی گئی ہو یا موصول اور مرسل بیان ہوئی ہو تو مرفوع اور موصول کا حکم لگایا جائے گا اس لئے کہ وہ ثقہ راوی کی زیادت ہے خواہ مرفوع اور موصول بیان کرنے والے حفظ اور تعداد میں زیادہ ہوں یا کم۔"
اسی طرح ایک مقام پر امام دارقطنی کے مسلم پر استدراک کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
(وهذا الذى استدركه بناء على القاعده المعروفة له و اكثر المحدثين انه اذا تعارض فى رواية الحديث وقف ورفع او ارسال و اتصال حكموا بالوقف والارسال وهى قاعدة ضعيفه ممنوعة والصحيح طريقة الاصوليين والفقهاء والبخارى و مسلم و محققى المحدثين انه يحكم بالرفع والاتصال لانها زيادة ثقه)شرح صحیح مسلم 1/282) صحیح مسلم 1/281 میں مخرمہ بن بکیر عن ابیہ عن ابی بردۃ عن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر استدراک کرتے ہوئے امام دارقطنی نے کہا ہے کہ مخرمہ بن بکیر کے علاوہ اسے کسی نے مسندا بیان نہیں کیا محدثین کی ایک جماعت نے ابو بردہ کا قول روایت کیا ہے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں۔ یہ استدراک امام قطنی نے اپنے معروف قاعدہ اور اکثر محدثین کے مطابق کیا ہے کہ جب حدیث کی روایت میں موقوف و مرفوع یا مرسل و موصول ہونے میں تعارض واقع ہو تو اس پر موقوف و مرسل ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ یہ قاعدہ ضعیف و ممنوع ہے حالانکہ صحیح طریقہ اصولیین فقہاء امام بخاری، امام مسلم اور محقق محدثین کا یہ ہے کہ روایت کے مرفوع اور موصول ہونے کا حکم لگایا جائے گا اس لئے کہ یہ زیادت ثقہ ہے۔
اسی طرح امام نووی امام دارقطنی کے صحیح مسلم پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے 1/472 اور 2/40 میں یہی قاعدہ ذکر کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام دارقطنی ایسی علل ذکر کر دیتے ہیں جو حقیقت میں حدیث میں جرح و قدح کا باعث نہیں ہوتیں اور جنازے میں تکبیرات کے ساتھ رفع یدین والی علت بھی اس قبیل سے ہے۔ مرفوع و موقوف میں تعارض کی صورت میں مرفوع کا حکم لگانے کا یہی قاعدہ خطیب البغدادی نے
(الكفايه فى علم الرواية باب القول فيما روى من الاخبار مرسلا و متصلا هل يثبت و يحجب العمل به ام لا)1 ص 411 میں، حافظ عراقی نے الفیۃ الحدیث اور اس کی شرح فتح المغیث ص 77 میں اسی طرح، فتح المغیث للسخاوی 1/189 المقنع فی علوم الحدیث لابن الملتفی ص 151، بیہقی 7/108 التبصرۃ والتذکرۃ للحافظ زکریا انصاری 1/174'175، فتح الباقی ص 160، الاعتبار للحازمی ص 11 ط آخری ص 17 الوجہ الحادی والعشرون، کتاب القراۃ للبیہقی ط قدیم ص 55 ط جدید ص 69، طفر الامانی لعبد الحئی لکھنوی ص 367 بتحقیق دکتور تقی الدین ص 332، بتحقیق ابو نحدہ 333 مولانا عبدالحئی لکھنوی نے تو یہاں پر موقوف کو حکما مرفوع قرار دیا ہے۔ قواعد فی علوم الحدیث از ظفر احمد تھانوی ص 118 تا 123، احسن الکلام از سرفراز صفدر دیوبندی، 1/282'285'322'324'350'358'359'360، ملا علی قاری مرقاۃ 4/166، نصب الرایۃ 2/84، الجوھر النقی 2/173 بحوالہ فقہ الفقیہ ص 254 ص 255، از ابو یوسف محمد شریف کوٹلوی بریلوی)
مذکورہ بالا توضیح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت مرفوعا و موقوفا صحیح اسانید کے ساتھ مروی ہے جس سے جو نماز جنازہ میں تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نماز جنازہ میں تکبیرات کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
(وقد صح عن ابن عباس انه كان يرفع يديه فى تكبيرات الجنازة رواه سعيد بن منصور)(التلخیص الحبیر، کتاب الجنائز 1/333 ط جدید)
"عبداللہ بن عباس سے صحیح ثابت ہے کہ وہ تکبیرات جنازہ میں رفع یدین کیا کرتے تھے اسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔"
حنفی حضرات کو یہاں بالخصوص اپنا یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب راوی حدیث کا عمل یا فتویٰ اس کی روایت کے خلاف ہو تو راوی حدیث کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جاتا اس کے عمل یا فتوی کو لیا جاتا ہے۔
جیسا کہ نور الانوار ص 275 مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی، الحسامی ص 76 قواعد فی علوم الحدیث ص 202 کتاب التحقیق ص 354 النامی ص 151'152 وغیرہ کتب اصول فقہ حنفیہ میں تصریح موجود ہے لہذا احناف کو اپنے اصول و قواعد کے لحاظ سے یہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ترک کر کے ان کے عمل کو اپنانا چاہیے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ احناف کا کوئی اصول نہیں یہ کسی فقہی جزئی کے دفاع کے لئے ایک قاعدہ وضع کرتے ہیں تو دوسرے مقام پر اسے اپنے خلاف پا کر چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ هداهم الله
امام ترمذی نے نماز جنازہ میں رفع یدین کے متعلق لکھا ہے کہ:
اکثر اہل علم صحابہ کرام اور ان کے علاوہ کے نزدیک نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہیے اور یہی قول عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق بن راھویہ کا ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے صرف پہلی مرتبہ ہی رفع یدین کرے یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔
علاوہ ازیں قیس بن ابی حازم (جزء رفع یدین (112) عبدالرزاق 3/469'470، ابن ابی شیبہ 2/180 نافع بن جبیر جزء رفع یدین (114) عمر بن عبدالعزیز جزء رفع یدین (115) ابن ابی شیبہ 3/180 بیہقی 4/44 ابو رجاء العطاردی الکنیٰ للدولابی 2/143) مکحول جزء رفع یدین (116) زھری جزء رفع یدین (118) عبدالرزاق 3/469، امام عبدالرزاق کا بھی یہی موقف ہے (ایضا) حسن بصری (جزء رفع یدین (122) بیہقی 4/44، انس، عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین (بیہقی 4/44 التلخیص الحبیر 1/233، کتاب الام 1/271)
جیسے سلف صالحین رحمھم اللہ اجمعین سے نماز جنازہ کی تمام تکبیرات کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے اسی طرح کئی حنفی علماء کرام بھی تکبیرات جنازہ میں رفع یدین کے قائل ہیں۔
علامہ سرخسی فرماتے ہیں:
(وكثير من ائمة بلخ اختاروا رفع اليد عند كل تكبيرة فيها)(المبسوط 2/64)
کثیر ائمہ بلخ نے نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کو اختیار کیا ہے۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی سے جب اس مسئلہ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا۔ "بخاری نے کتاب رفع الیدین میں نافع سے روایت کی ہے کہ ابن عمر جب نماز جنازہ پڑھتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے نیز انہی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جنازہ کی تکبیروں میں رفع الیدین کیا جائے اور موسیٰ سے روایت ہے کہ میں نے ابان بن عثمان کو نماز جنازہ پڑھتے دیکھا وہ پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے اور اسی طرح قیس بن ابی حازم، عمر بن عبدالعزیز، مکحول، وھب بن منبہ، زھری، ابراہیم نخعی اور حسن سے روایت ہے۔"
(مجموعہ فتاویٰ 3/272) اسی طرح ان کی کتاب عمدۃ الرعایۃ 1/253 ملاحظہ ہو۔ بحوالہ مسلک احناف اور مولانا عبدالحئی لکھنوی از محقق العصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب