جب کسی میت کا ایک بار جنازہ پڑھا گیا ہو دوبارہ اس کی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ (جمشید صاحب: نیو یارک)
نماز جنازہ میں تکرار درست ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(صحیح البخاری: 1247، صحیح مسلم 69/954 بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح: 1658)
"بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قبر کے پاس سے گزرے جس میں میت کو رات کے وقت دفن کیا گیا تھا آپ نے فرمایا: یہ کب دفن کیا گیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا کل رات: آپ نے فرمایا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ انہوں نے کہا ہم نے اسے رات کی تاریکی میں دفن کیا ہے اور آپ کو بیدار کرنا ہم نے ناپسند کیا۔ آپ کھڑے ہوئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(صحیح البخاری 1337، صحیح مسلم 71/956 بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح 1159)
"ایک سیاہ فام عورت یا مرد مسجد میں جھاڑو دیتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں پوچھا: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بتایا وہ فوت ہو گیا ہے آپ نے کہا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی صحابہ کرام نے گویا اس معاملہ کو چھوٹا سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی قبر پر راہنمائی کرو۔ انہوں نے راہنمائی کی آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی پھر فرمایا یہ قبور اپنے اہل پر تاریکی سے بھری ہوتی ہیں اور بےشک اللہ تعالیٰ ان پر میری نماز کی وجہ سے روشن کر دیتا ہے۔"
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ایک بار جنازہ ادا کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سمیت دوبارہ بھی اسی میت کا جنازہ پڑھا۔ لہذا تکرار جنازہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن الملک فرماتے ہیں:
(وبهذا الحديث ..... ذهب الشافعى الى جواز تكرار الصلوة على الميت)"اس حدیث کی وجہ سے امام شافعی میت پر نماز جنازہ کے تکرار کے جواز کی طرف گئے ہیں۔" (مرقاۃ 4/147)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں ہم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے قرظہ بن کعب کو ایک جنازہ پڑھانے کا حکم دیا جس پر ایک مرتبہ جنازہ پڑھا جا چکا تھا۔
(الاوسط 5/412، ابن ابی شیبہ 3/239 ط بیروت عبدالرزاق 6543)
حافظ عبداللہ محدث روپڑی فرماتے ہیں پس جب قبر پر نماز جنازہ ثابت ہو گیا تو جب میت قبر سے باہر ہو اس وقت بطریق اولیٰ ثابت ہو گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور دلیل اس کی یہ پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے نماز پڑھنے سے اللہ ان کی قبروں میں نور کر دیتا ہے۔ مگر ان لوگوں کی ڈبل غلطی ہے۔ یہ تو ایسا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس مسلمان کے جنازہ میں چالیس آدمی توحید والے شریک ہو جائیں اللہ ان کی سفارش ان کے حق میں قبول کرے گا۔ (مشکوۃ، باب المشی بالجنازہ)
تو کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ چالیس سے کم جنازہ نہ پڑھیں نیز زکاۃ کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"ان کے مالوں سے صدقہ لے۔"
"تاکہ اس صدقے کے ذریعے تو ان کا ظاہر و باطن پاک کرے اور ان کے لئے دعا کر"
"بےشک تیری دعا ان کے لئے تسلی ہے۔"
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ زکوۃ لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ان کے لئے تسلی ہے کسی اور کی نہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جو لوگ زکوۃ کے منکر ہو گئے تھے انہوں نے بھی یہی آیت پیش کر کے کہا تھا کہ زکوۃ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک تھا اب نہیں اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹھائی سو اس قسم کے دلائل سے خاصہ ثابت نہیں ہوا کرتا بلکہ کوئی واضح دلیل چاہیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے بھی نماز جنازہ پڑھی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ نہیں بلکہ عام ہے۔" (فتاویٰ اہل حدیث 2/461'462)
لہذا اگر نماز جنازہ دوبارہ بھی پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ تکرار درست ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب