سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) غروب آفتاب کے قریب نماز جنازہ کا حکم

  • 21385
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2595

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو تو کیا اس وقت نماز جنازہ ادا کرنا درست ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔ (ایک سائل: پتوکی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(ثلاثُ ساعاتٍ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا أن نصلي فيهن، أو أن نَقْبُرَ فيهِن مَوْتانا: حين تطلُع الشمسُ بازغةً حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس، وحين تَضَيَّفَ الشمسُ للغروب حتى تغرب)

(صحیح مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین، باب الاوقات التی نھی عن الصلوۃ فیھا (293/831) ابوداؤد (3192) نسائی (559'564'2012/ترمذی (1030) ابن ماجہ 1519 مسند ابو عوانہ 1/386 بیہقی 4/32 مسند الطیالسی (1001) مسند احمد 4/152)

"تین اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھنے اور مردے دفن کرنے سے منع کیا ہے جب سورج واضح طور پر طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے جب دوپہر کے وقت عین سر پر ہو حتی کہ غروب ہو جائے اور جس وقت غروب ہونے کے لئے مائل ہو رہا ہو حتی کہ غروب ہو جائے۔"

بیہقی میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ علی بن رباح کہتے ہیں میں نے عقبہ رضی اللہ عنہ سے کہا کیا رات کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ تو انہوں نے کہا ہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کے وقت دفن کئے گئے۔ یہ حدیث اپنے عموم کی بنا پر نماز جنازہ کو بھی شامل ہے اس لئے کہ وہ بھی صلاۃ (نماز) ہے۔ امام مالک، امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ اجمعین کا بھی یہی قول ہے علامہ البانی فرماتے ہیں:

(ولا تجوز الصلوة على الجنازة فى الاوقات الثلاثة التى تحرم الصلوة فيها الا لضرورة لحديث عقبة بن عامر رضى الله عنه)

(احکام الجنائز، ص: 165)

"جن تین اوقات میں نماز ادا کرنا حرام ہے ان میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز نہیں سوائے ضرورت کے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا فہم بھی اس مسئلہ میں یہی تھا۔"

محمد بن ابی حرملہ کہتے ہیں:

(ان زينب بنت ابى سلمة توفيت و طارق امير المدينة فاتى بجنازتها بعد صلاة الصبح فوضعت بالبقيع قال وكان طارق يغلس بالصبح قال ابن ابى مرحلة فسمعت عبدالله بن عمر يقول لاهلها اما ان تصلوا على جنازتكم الان واما ان تتركوها حتى ترتفع الشمس)

(بیہقی، کتاب الجنائز، باب من کرہ الصلوۃ والقبر فی الساعات الثلاث 4/32، المؤطا، کتاب الجنائز ص 188 مترجم)

"زینب بنت ابی سلمۃ فوت ہو گئیں اور اس زمانے میں مدینہ کے حاکم طارق تھے۔ نماز صبح کے بعد ان کا جنازہ لایا گیا۔ اور بقیع میں رکھا گیا اور طارق صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھاتے تھے ابن ابی حرملۃ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنا وہ زینب کے گھر والوں سے کہتے تھے، یا تو تم نماز جنازہ اب پڑھ لو یا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔"

امام مالک نے اسی باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:

(يصلى على الجنازة بعد العصر و بعد الصبح اذا صليتا لوقتهما)

(الاوسط لابن المنذر)

نماز جنازہ عصر کے بعد اور صبح کے بعد پڑھی جائے جب یہ دونوں نمازیں اپنے وقت میں پڑھی جائیں یعنی صبح اندھیرے میں پڑھی جائے اور عصر آفتاب زرد ہونے سے پہلے پڑھی جائے زیاد کو علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی:

(وان جنازة وضعت جنازة في مقبرة أهل البصرة حين اصفرت الشمس، فلم يصل عليها حتى غربت الشمس , فأمر أبو برزة رضي الله عنه المنادي فنادى بالصلاة، ثم أقامها، فتقدم أبو برزة فصلى بهم المغرب وفي الناس أنس بن مالك رضي الله عنه وأبو برزة من الأنصار من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم صلوا على الجنازة) (بیہقی: 4/32)

"اھل بصرہ کے قبرستان میں سورج کے زرد ہونے کے وقت ایک جنازہ رکھا گیا اس پر جنازہ نہیں پڑھا گیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ابو برزۃ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو حکم دیا کہ وہ نماز کے لئے اذان کہے پھر اس نے اقامت کہی ابو برزۃ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر انہیں مغرب کی نماز پڑھائی اور لوگوں میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ابوبرزۃ رضی اللہ عنہ انصاری صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے موجود تھے پھر انہوں نے جنازہ پڑھا۔"

عبدالرحمٰن بن حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں:

(وأُتِيَ بِجِنَازَةِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: “صَلُّوا عَلَى صَاحِبَكُمُ الْآنَ، وَإِلَّا فَأَخِّرُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسِ) (الاوسط لابن المنذر: 5/396)

"رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا جنازہ نماز فجر کے بعد لایا گیا میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا اپنے ساتھی پر اب جنازہ پڑھ لو وگرنہ اسے لیٹ کرو حتی کہ سورج طلوع ہو جائے۔"

مذکورہ بالا احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج جب نکل رہا ہو یا عین سر پر ہو یا غروب ہونے کے قریب ہو تو نماز جنازہ وغیرہ ادا نہیں کرنا چاہیے۔ امام احمد، امام اسحاق بن راھویہ، امام مالک، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ وغیرہ ائمہ کا یہی نقطہ نظر ہے جیسا کہ تحفۃ الاحوذی 4/102 میں ہے۔

جب کہ امام شافعی فرماتے ہیں جن اوقات میں نماز مکروہ ہے ان میں جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

(ترمذی مع تحفہ 4/102) کتاب الایام، باب القیام بالجنازۃ 1/279)

علامہ زیلعی فرماتے ہیں: ابوداؤد نے اس حدیث کو دفن حقیقی پر محمول کیا ہے انہوں نے اسے کتاب الجنائز میں ذکر کیا ہے اور اس پر باب باندھا ہے "باب الدفن عند طلوع الشمس وعند غروبھا" اور امام ترمذی نے اسے نماز پر محمول کیا ہے اسی لئے انہوں نے اس حدیث پر باب باندھا:

(باب ما جاء فى كراهية صلوة الجنازة عند طلوع الشمس وعند غروبها)

طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت نماز جنازہ کی کراھیۃ کے بارے میں اور امام ترمذی نے عبداللہ بن المبارک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اس حدیث میں:

(انقبر فيهن موتانا) کا معنی ہے "نماز جنازہ" اور اس معنی میں حدیث میں تصریح بھی آئی ہے امام ابوحفص عمر بن شاہین نے کتاب الجنائز میں خارجہ بن مصعب عن لیث بن سعد عن موسیٰ بن علی کی سند سے بیان کیا ہے کہ:

(نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نصلى على موتانا عند ثلاث: عند طلوع الشمس الى آخره)

"کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں مردوں پر جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے۔"

طلوع شمس کے وقت الخ۔ علامہ مبارکپوری فرماتے ہیں "اگر کہا جائے کہ نماز جنازہ بھی تو نماز ہے اور ان اوقات میں ہر نماز منع ہے تو امام شافعی نے کیسے کہہ دیا ہے کہ ان اوقات میں نماز جنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا امام شافعی کے نزدیک ان اوقات میں ہر نماز منع نہیں بلکہ صرف وہ نمازیں منع ہیں جن کے لئے کوئی سبب نہیں اور جو اسباب والی نمازیں ہیں وہ ان اوقات میں جائز ہیں اور نماز جنازہ اسباب والی نمازوں میں سے ہے۔ (تحفۃ الاحوذی: 4/103)

جبکہ امام خطابی رحمہ اللہ تعالیٰ "معالم السنن: 4/327 میں فرماتے ہیں۔

ان تین اوقات میں لوگوں نے نماز جنازہ ادا کرنے اور میت کو دفن کرنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے اکثر اہل علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ ان اوقات میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے یہی قول عطا، نخعی، اوزاعی، ثوری، اھل الرائے، احمد اور اسحاق بن راھویہ کا ہے اور شافعی کے نزدیک دن یا رات کے کسی وقت بھی نماز اور میت کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ اور جماعت کا قول حدیث کی موافقت کی وجہ سے اولیٰ ہے۔ امام ابن المنذر النیسا پوری نے بھی اسی بات کو قبول کیا ہے۔ (الاوسط لابن المنذر 5/396)

اور راقم کے نزدیک بھی یہی بات اولی و انسب ہے کیونکہ اس کی تائید عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ہوتی ہے۔ واللہ اعلم

علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری فرماتے ہیں "بعد نماز عصر اور بعد نماز فجر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے ہاں افتاب طلوع ہونے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت اور ٹھیک دوپہر کو آفتاب کے کھڑے ہونے کے وقت نماز جنازہ پڑھنا نہیں چاہیے" (کتاب الجنائز: 48)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ207

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ