محترم ربانی صاحب آپ کی کتاب (آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں) جلد دوم صفحہ 237 تا 242 پر ایک مسئلہ "قبر پر نماز جنازہ" کے عنوان سے درج ہے۔ ص 242 پر آپ نے لکھا ہے "قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا بالکل صحیح و درست ہے اور اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں" محترم میں آپ کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
(رواہ ابن الاعرابی فی معجمہ والطبرانی فی الاوسط و اسنادہ حسن، احکام الجنائز للالبانی ص 108)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی قبروں کے درمیان نماز جنازہ پڑھے۔ اس حدیث سے قبر پر نماز جنازہ کی ممانعت کا حکم مل رہا ہے جو کہ فعلی ہے جب کہ درج بالا حدیث قولی ہے۔ قولی حدیث فعلی حدیث کے مقابلے میں قبول کی جائے گی۔ پھر بھی اگر مزید غور کیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے اور حدیث سے بھی اس کا ثبوت مل رہا ہے۔ فرمایا "یہ قبریں اپنے اہل پر اندھیروں سے بھری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میری نماز کی برکت سے ان پر ان کی قبروں کو روشن کر دیتا ہے" (صحیح مسلم، رقم 2/956)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے قبریں روشن ہوتی تھیں۔ اس لئے آپ نے پڑھی جیسا کہ ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر ایک درخت کی ٹہنی لگائی اور کہا کہ جب تک یہ سرسبز رہے گی ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔ (حوالہ یاد نہیں) اب ہم خود تو کسی قبر پر پھول پتے نہیں لگا سکتے چونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا ایسے ہی قبر پر نماز پڑھنا بھی آپ کا خاصہ اور معجزہ تھا۔ جس سے قبریں منور ہو جاتی تھیں۔ اور اپنی امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ محترم یہ ہیں وہ دلائل جن کی بناء پر میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔
محترم اگر مؤقف غلط ہے تو آپ سے بصد احترام گزارش کرتا ہوں کہ دلائل کے ساتھ میری اصلاح فرمائیں۔ میں ان شاءاللہ اپنی غلطی تسلیم کر لوں گا۔ (سلیم اختر۔ کراچی)
آپ کا خط موصول ہوا جواب میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔ انتہائی مصروفیات میں سے وقت نکال کر آپ کے خط کا جواب بعون اللہ تبارک و تعالیٰ و توفیقہ جواب تحریر کر رہا ہوں۔ آپ نے میری کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں" جلد دوم ص 237 تا 242 پر مرقوم مسئلہ "قبر پر نماز جنازہ" کے بارے لکھا کہ "قبر پر نماز جنازہ بالکل صحیح و درست ہے اور اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں پھر آپ نے فرمایا: محترم میں آپ کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرت کیونکہ اس کا نسخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی قبروں کے درمیان نماز جنازہ پڑھے آپ کا جواب دعوی کئی لحاظ سے درست نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث چار راویوں نے ذکر کی ہے:
(1) ثمامہ (مسند بزار (443 کشف الاستار للھیثمی)
(2) حسن بصری (ابن حبان، موارد الظمآن 343'344، مسند ابی یعلی 5/175، ابن الاعرابی (2334)
(3) عاصم (مسند بزار (کشف الاستار (441 للھیثمی)
(4) محمد بن سیرین (طبرانی اوسط 6/293، ابن الاعرابی (2330)
اس روایت میں " على الجنائز " کی زیادت صرف ابن سیرین والی سند میں ہے اور یہ الحسین بن یزید الطحان الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے امام ابو حاتم رازی نے اسے لین الحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھیں
(الجرح والتعدیل 3/67، تقریب ص75، الکاشف 2/337)
اور یہ بھی یاد رہے کہ محدثین نے ناسخ کی شرط میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ منسوخ سے اقوی ہو۔ امام ابن الجوزی ایک مقام پر فرماتے ہیں:
" ولو صح ذلك لم تصح دعوى النسخ لان من شرط الناسخ ان يكون اقوى من المنسوخ "(نصب الرایہ 1/392، التحقیق فی اختلاف الحدیث 1/278)
آپ کی پیش کردہ روایت صحیحین کی روایت سے اقوی تو کجا صحیح بھی نہیں۔ امام ابن الجوزی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں " الضعيف لا ينسخ القوى " (نصب الرایہ 1/88) ضعیف قوی کو منسوخ نہیں کرتی۔
لہذا آپ کی پیش کردہ روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو پھر بھی دعوی نسخ باطل ہے۔
نوٹ: کتاب المعجم لابن الاعرابی کا جو نسخہ محمود محمد نصار اور السید یوسف احمد کی تحقیق سے طبع ہوا ہے اس میں " على الجنائز " کی زیادتی نہیں۔
(2) شرائط نسخ میں سے یہ بات بھی ہے کہ ناسخ مؤخر ہو اور منسوخ مقدم۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ:
(لا یصار الی النسخ الا اذا علم التاریخ و تعذر الجمع) (فتح الباری 1/341' 3/181، بحوالہ توجیہ القاری ص 95)
امام ابوبکر محمد بن موسی الحازمی فرماتے ہیں:
(ومنها ان يكون الخطاب الناسخ متراخيا عن المنسوخ)(کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار ص 9)
لہذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی پیش کردہ روایت کو صحیح ثابت کرنے کے ساتھ اس کا تاخر بھی ثابت کریں ورنہ آپ کا دعوی نسخ ثابت نہیں ہو گا۔
(3) ناسخ و منسوخ پر مرتب شدہ کتب میں سے کسی کتاب میں اس کو ذکر نہیں کیا گیا اگر آپ کے علم میں ہو تو ضرور راہنمائی فرمائیں کہ فلاں محدث کی ناسخ و منسوخ پر فلاں کتاب میں اسے منسوخ قرار دیا گیا ہے۔
(4) انس رضی اللہ عنہ سے ہی قبر پر جنازہ پڑھنے کی صحیح حدیث موجود ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: (آپ کے مسائل اور ان کا حل 2/239)
پھر آپ نے تحریر فرمایا "آپ کی پیش کردہ احادیث سے جواز کا ثبوت مل رہا ہے جو کہ فعلی ہے جب کہ درج بالا حدیث قولی ہے قولی حدیث فعلی حدیث کے مقابلے میں قبول کی جائے گی (ص 1)
محترم آپ کی یہ بات بھی محل نظر ہے۔
(1) پہلے آپ نے دعوی نسخ کیا اور یہاں جو وجہ ذکر کر رہے ہیں یہ وجہ نسخ نہیں بلکہ وجہ ترجیح ہے جس سے آپ کا دعوی نسخ مردود ہوا۔
(2) جب یہ روایت ضعیف ہے تو صحیح کے مقابلہ میں قبول نہیں ہو گی۔ پھر آپ نے فرمایا: اگر مزید غور کیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے پھر آپ نے
(ان هذه القبور مملوئة ظلمة على اهلها وان الله ينورها عليهم بصلاتى) والی حدیث کا ذکر کیا ہے۔
آپ کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ قبر پر جنازہ ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے درست نہیں کیونکہ اگر یہ آپ کی خصوصیت ہوتی تو جن صحابہ کرام نے آپ کے ساتھ قبر پر جنازہ پڑھا تھا آپ انہیں منع فرما دیتے کہ یہ آپ کے لئے جائز نہیں۔ حالانکہ مسجد میں جھاڑو دینے والی یا والا جب فوت ہو گیا تو صحابہ کرام نے اسے عام آدمی سمجھ کر جنازہ پڑھا کر دفنا دیا اور جب آپ کو بتایا گیا تو پھر انہوں نے آپ کی اقتداء میں بھی جنازہ قبر پر ادا کیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں جھاڑو دینے والے شخص کے جنازے والی حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: زاد ابن حبان فى رواية حماد بن سلمة عن ثابت:
" ثم قال إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها عليهم بصلاتي وأشار إلى أن بعض المخالفين احتج بهذه الزيادة على أن ذلك من خصائصه صلى الله عليه وسلم ثم ساق من طريق خارجة بن زيد بن ثابت نحو هذه القصة وفيها ثم أتى القبر فصففنا خلفه وكبر عليه أربعا قال ابن حبان : في ترك إنكاره صلى الله عليه وسلم على من صلى معه على القبر بيان جواز ذلك لغيره وأنه ليس من خصائصه " (فتح الباری 3/305)"ابن حبان نے حماد بن سلمہ از ثابت والی روایت میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ "پھر آپ نے فرمایا بلاشبہ یہ قبریں اپنے اہل پر اندھیروں سے بھری ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ میری نماز کی وجہ سے ان پر روشنی کر دیتا ہے۔ ابن حبان نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض مخالفین نے اس زیادت سے اس بات پر حجت پکڑی ہے کہ قبر پر جنازہ ادا کرنا آپ کی خصوصیات میں سے ہے پھر ابن حبان نے خارجہ بن زید بن ثابت کے طریق سے اسی طرح کا قصہ بیان کیا ہے اور اس حدیث میں ہے "پھر آپ قبر پر آئے ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کو ترک کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قبر پر جنازہ آپ کے علاوہ دیگر حضرات کے لئے بھی جائز ہے۔"
امام ابن حبان اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح سے معلوم ہوا کہ قبر پر جنازہ ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لئے بھی مباح و جائز ہے جس نے مذکورہ حدیث سے آپ کی خصوصیت مراد لی ہے وہ علم حدیث میں ماہر نہیں ہے۔ اگر امت کے لئے جائز نہ ہوتا تو آپ کے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنازہ ادا کرنے کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام سے اس کا ثبوت موجود ہے۔ آثار صحابہ کے لئے دیکھیں:
"ابن ابی شیبہ، رقم الباب (162) فی المیت یصلی علیہ بعد ما دفن من فعلہ 3/41'42 مطبوعہ دار التاج بیروت اور الاوسط لابن المنذر، باب ذکر الصلاۃ علی القبر (80) 5/413-411 وغیرھما)
حدیث کے الفاظ سے آپ کا استدلال بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ زکوۃ و صدقات کی وصولی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیں جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک و صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کر دیں بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے سکون کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔"
جب آپ کی صلاۃ زکوۃ و صدقات دینے والوں کے لئے سکون کا موجب ہے کسی اور کے لئے یہ خصوصیت نہیں لہذا صدقہ وصول کرنا آپ کی خصوصیت ٹھہرا جیسا کہ آپ کی صلاۃ سے قبر روشن ہوتی ہے تو قبر پر جنازہ ادا کرنا آپ کی خصوصیت ہوا۔ " فماهو جوابكم فهو جوابنا "
اسی طرح قبر پر ٹہنی گاڑنے والی حدیث سے آپ کا استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں عذاب قبر کی خبر دی گئی ہے۔ جو کہ صاحب وحی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا پھر آپ کے ایک صحابی سے اس بات کی وصیت منقول ہے کہ میری قبر پر دو شاخیں لگا دینا امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب الجریدۃ علی القبر میں نقل کیا ہے کہ:
"بریدہ رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر میں دو شاخیں لگا دی جائیں۔"
لہذا آپ کے پیش کردہ دلائل میں اتنا وزن نہیں کہ صحیح احادیث کا معارضہ کر سکیں۔ صحیح موقف وہی ہے جسے میں نے اپنی کتاب میں درج کر دیا ہے۔ هذا ما عندى
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب