سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) قبر پر تلقین پڑھنا

  • 21382
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4339

سوال

(42) قبر پر تلقین پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر تلقین پڑھنا درست ہے؟ (مسعود احمد۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی مسلمان موحد فوت ہو جائے تو اسے قبر میں دفن کرنے کے بعد اس کے حق میں حساب کی آسانی اور ثابت قدمی کے لئے دعا کرنا مسنون ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ معمول تھا، کئی ایک احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

"عن عثمان بن عفان رضي الله عنه قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ : ( اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ"

(ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف (3221) مستدرک حاکم 1/370، بیہقی 4/56، زوائد الزھد لعبداللہ بن احمد، ص: 129)

اس حدیث کو حاکم و ذھبی نے صحیح کہا، امام نووی نے فرمایا اس کی سند جید ہے۔ (مجموع: 5/292)

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے:

"اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔"

مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں:

"فى الحديث مشروعية الإستغفار للميت عند الفراغ من دفنه و سؤال التشبيت له لأنه يسئل فى تلك الحال"(عون المعبود: 3/209)

"اس حدیث سے میت کے لئے اس کے دفن سے فارغ ہوتے وقت بخشش کی دعا کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرنا بھی اس لئے کہ وہ اس حالت میں سوال کیا جاتا ہے۔"

مندرجہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ میت کو کلمہ شہادت اور سوال و جواب کی تلقین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"فى الحديث دليل على مشروعية الإستغفار للميت عند الفراغ من دفنه و سؤال التشبيت له وأن دعاء الأحياء ينفع الأموات وليس فيه دلالة على التلقين عند الدفن كما هو المعتاد فى الشافعية وليس فيه حديث مرفوع صحيح وأما ماروى فى ذالك من حديث ابى امامة فهو ضعيف لا يقوم به حجة عزاه الهيثمى للطبرانى وقال: فيه جماعة لم اعرفهم" (مرعاۃ المفاتیح 1/230)

"اس حدیث میں میت کے دفن سے فارغ ہونے کے وقت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرنا اور بلاشبہ زندوں کی دعا مردوں کو نفع دیتی ہے۔ اس حدیث میں دفن کے وقت تلقین کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں جیسا کہ شافعیہ کے تلقین کی عادت ہے اور نہ ہی کوئی مرفوع صحیح حدیث تلقین کے بارے موجود ہے اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے جو روایت بیان کی گئی ہے وہ ضعیف ہے قابل حجت نہیں۔"

اس حدیث کو امام ہیثمی نے طبرانی کی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے:

اس میں راویوں کی ایک جماعت ہے جنہیں میں نہیں پہچانتا۔

امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"ولم يكن يجلس يقرأ عند القبر ولا يلقن الميت كما يفعله الناس اليوم"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قراءت کے لیے نہیں بیٹھتے تھے اور نہ ہی میت کو تلقین کرتے تھے جیسا کہ لوگ آج کرتے ہیں۔"

اس سلسلہ میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ سعید بن عبداللہ الاودی نے کہا: میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا وہ حالت نزع میں تھے انہوں نے فرمایا: جب میں مر جاؤں تو میرے ساتھ ایسا معاملہ اختیار کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ آپ نے فرمایا:

"جب تمہارا کوئی بھائی مر جائے تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے کوئی ایک اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو جائے پھر کہے اے فلاں ابن فلانہ۔ وہ سن رہا ہوتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا پھر کہے اے فلاں ابن فلانہ، تو وہ اٹھ کر برابر بیٹھ جاتا ہے پھر کہے اے فلاں ابن فلانہ تو وہ کہتا ہے ہماری راہنمائی کرو اللہ تیرے اوپر رحم کرے لیکن تم سمجھتے نہیں پھر کہے وہ بات یاد کر جس پر تو دنیا سے گیا تھا یعنی "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی شہادت اور اسے کہا جائے بےشک تو اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا اس لئے کہ منکر و نکیر میں سے ہر ایک اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں آ میرے ساتھ چل ہم اس کے پاس نہیں بیٹھیں گے۔

جسے اس کی دلیل و حجت و تلقین کی گئی تو پھر ان دونوں کے ماوراء اللہ تعالیٰ اس کا جج بن جاتا ہے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول! اگر اس کی ماں کو نہ جانتا ہو تو پھر آپ نے فرمایا اس کو حواء کی طرف منسوب کر کے کہے اے فلاں ابن حواء۔

اس روایت کے نقل کرنے کے بعد علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:

"رواه الطبرانى فى الكبير وفى اسناده جماعة لم اعرفهم"

"اسے طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں راویوں کی ایک جماعت ہے جنہیں میں نہیں پہچانتا۔"

(مجمع الزوائد، باب تلقین المیت بعد دفنہ 3/48)

امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"فهذا حديث لا يصح رفعه"

یہ حدیث مرفوعا صحیح نہیں۔ (زاد المعاد 1/523)

علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"ويتحصل من كلام أئمة التحقيق أنه حديث ضعيف والعمل به بدعة ولا يغتر بكثرة من يفعله" (سبل السلام 2/773)

ائمہ محققین کے کلام سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل بدعت ہے اور ان لوگوں کی کثرت سے دھوکا مت کھائیں جو یہ کرتے ہیں۔ امام نووی نے (المجموع شرح المھذب 5/304) میں اسے ضعیف کہا ہے اور امام ابن الصلاح نے فرمایا اس کی سند قائم نہیں۔ اسی طرح حافظ عراقی نے احیاء علوم الدین کی تخریج 4/420 میں اسے ضعیف کہا ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 2/64 (599) میں اسے منکر قرار دیا ہے۔

ابن حجر عسقلانی کا التلخیص الضبیر 2/135'136 میں اس کی سند کو صالح قرار دینا اور بلوغ المرام (576) میں سکوت محل نظر ہے۔

کیونکہ جب اس کے رواۃ نامعلوم ہیں تو سند کا صالح ہونا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس طرح امام نووی، ابن الصلاح، حافظ عراقی اور علامہ ابن القیم کی تضعیف حافظ ابن حجر پر مقدم ہے، اس روایت کی مزید تفصیل سلسلہ ضعیفہ میں دیکھیں:

زاد المعاد کے حاشیہ میں یہ بات مذکور ہے کہ: "اس روایت کو تخریج کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی نے "امالی الاذکار" میں فرمایا ہے جیسا کہ ابن علان نے "الفتوحات الربانیہ 4/196" میں ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور حدیث کی سند دو طریقوں سے انتہائی ضعیف ہے۔ واللہ اعلم

اسی طرح تلقین کے لئے اس روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لقنوا موتاكم لا إله إلا الله" کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے اور مفصل طور پر صحیح ابن حبان میں موجود ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی کہ اس سے مراد قریب المرگ شخص کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا، تاکہ اس کی موت کلمہ توحید پر آئے۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لاَ إله إِلاَّ الله فَإِنَّهُ مَنْ كانَ آخِرَ كَلمتِه لاَ إله إِلاَّ الله عِنْدَ المَوْتِ دَخَلَ الجَنَّة يَوْماً مِنَ الدَّهْرِ وَإِنْ أَصَابَهُ قَبْلَ ذَلِكَ مَا أَصَابَهُ"(صحیح ابن حبان، موارد 719)

"اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو جس کا آخری کلام موت کے وقت لا الہ الا اللہ ہوا وہ ایک دن زمانے سے جنت میں داخل ہو گا۔ اگرچہ اس کو اس سے قبل جو مصیبت پہنچتی ہو گی پہنچے گی۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ لقنوا موتاكم والی حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے مرنے کے بعد اسے دفن کر کے لا الہ الا اللہ کی تلقین کی جائے بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب انسان قریب المرگ ہو تو اسے لا الہ الا اللہ پڑھنے کو کہا جائے تاکہ اس کے جنت میں داخل ہونے کا سبب و ذریعہ بن جائے۔ اس حدیث کے اور شواہد بھی موجود ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی قریب المرگ آدمی کو لا الہ الا اللہ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی النجار کے ایک آدمی کی عیادت کے لئے گئے تو آپ نے اسے کہا لا الہ الا اللہ کہو اس نے کہا کیا لا الہ الا اللہ کہنا میرے لئے بہتر ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔

(مسند احمد 3/152'154'286، یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔)

مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"واما قوله صلى الله عليه وسلم لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لاَ إله إِلاَّ الله فالمراد عند الموت لا عند دفن الميت" (مرعاۃ المفاتیح: 1/230)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو کا مطلب موت کے وقت ہے نہ کہ میت کو دفن کرنے کے وقت۔"

اس لئے کہ لا الہ الا اللہ کو جانتے ہوئے دنیا سے گیا تو جنت میں داخل ہو گیا، مرنے کے بعد لا الہ الا اللہ کی تلقین مفید نہ ہو گی۔ مندرجہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد میت کو دفن کر کے قبر پر تلقین کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ملتا۔ شوافع کے ہاں جو اس کو مستحب کہا گیا ہے اس کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ہمارے ہاں جو لوگ قبر پر تلقین کرتے ہیں یہ حنفی ہیں اور حنفی مذہب میں اس کا کوئی جواز نہیں۔

(1) فتاویٰ عالمگیر میں ہے:

"وصورة التّلقين أن يقال عنده في حالة النّزع قبل الغرغرة، جهراً وهو يسمع‏:‏ «أشهد أن لا إله إلاّ اللّه وأشهد أنّ محمّداً رسول اللّه ولا يقال له قل ۔۔ واما التلقين بعد الموت فلا يلقن عندنا فى ظاهر الرواية كذا فى العينى شرح الهدايه و معراج الدراية"

(عالمگیر 1/157)

"تلقین کی صورت یہ ہے کہ حال نزع کے وقت موت کے غرغرے سے پہلے اونچی آواز میں اس کے پاس کہا جائے جسے وہ سن لے۔ "أشهد أن لا إله إلاّ اللّه وأشهد أنّ محمّداً رسول اللّه" اور اسے یہ نہ کہا جائے کہ کلمہ کہہ۔ اور جو تلقین موت کے بعد ہوتی ہے ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ وہ نہ کی جائے جیسا کہ عینی شرح الہدایہ اور معراج الدرایہ میں ہے۔"

(2) ۔۔ فقہ حنفی کی معتبر کتاب الھدایہ میں ہے۔

"ولقن الشهادتين لقوله صلى الله عليه وسلم "لقنوا موتاكم شهادة ان لا إله إلاّ اللّه"" (الھدایہ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز ص 1/88، مطبوعہ بیروت)

قریب المرگ کو شھادتین کی تلقین کی جائے اس لئے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو اس حدیث میں موتی سے مراد وہ آدمی ہے جو موت کے قریب ہو۔

(3) اس کی شرح میں العنایۃ شرح الھدایہ میں ہے۔

"والمراد الذى قرب من الموت دفع لوهم من يتوهم ان المراد به قرأة التلقين على القبر كما ذهب اليه بعض"

(العنایہ علی ھاش، فتح القدیر 2/68)

"اس حدیث کی شرح میں صاحب ھدایہ نے جو قریب المرگ مراد لیا ہے یہ اس شخص کے وھم کو دفع کرنے کے لئے ہے جس نے اس سے مراد قبر پر تلقین لی ہے جیسا کہ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں۔"

(4) شیخ داماد آفندی حنفی راقم ہیں:

"وقال اكثر الأئمة والمشايخ لا يجوز"

"اکثر ائمہ و مشائخ نے کہا ہے کہ تلقین جائز نہیں۔"

(مجمع الانھر شرح ملتقی الابھر 1/264)

(5) علامہ العلاء الحصکفی حنفی لکھتے ہیں:

"ويلقن كلمة الشهادة قبل الغرغرة من غير امر ولا يلقن بعد الموت"

"موت کا غرغرہ آنے سے پہلے حکم دیے بغیر کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے موت کے بعد تلقین نہ کی جائے" (الدرر المنتقی فی شرح الملتقی، 1/264)

(6) علامہ علاء الدین الکاسانی الحنفی لکھتے ہیں:

"ويلقن كلمة الشهادة لقول النبى صلى الله لقنوا موتاكم لا اله الا الله والمراد من الميت المحتضر لأنه قرب موته فسمى ميتا لقربه من الموت قال الله تعالى "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ""

(الزمر: 30، بدائع الصنائع 1/443)

"قریب المرگ کو کلمہ شہادت کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کی جائے کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ میت سے مراد یہاں وہ شخص ہے جس پر جان کنی کا وقت ہو اس لئے کہ اس کی موت قریب ہے اسے میت قریب الموت ہونے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔"

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بےشک آپ بھی میت ہیں اور یہ بھی میت ہے۔" اس آیت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کو میت کہا کیونکہ موت بالکل قریب تھی۔

(7) علامہ عینی حنفی تلقین موتی کی توضیح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"لأن المقصود من ذلك أن يكون آخر كلام الميت كلمة الشهادة فالتلقين فى قبره لا يساعده المقصود وقد قال عليه السلام من كان آخر كلامه قول لا اله الا الله دخل الجنة ۔۔ وأما التلقين بعد الموت فلا يلقن عندنا فى ظاهر الرواية"

(البنایۃ فی شرح الھدایۃ 3/207'208)

اس تلقین سے مقصود میت کا آخری کلام کلمہ شہادت ہو قبر کے اوپر تلقین کرنے سے مقصود حاصل نہیں ہوتا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ یہ تلقین مرنے کے بعد ہوتی ہے وہ ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ میں جائز نہیں۔

(8) شاہ اسحاق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اما تلقین میت بعد از موت پس دراں اقاویل علماء است در ظاھر روایت آن است کہ تلقین نہ کند" (مسائل اربعین، ص: 41)

"موت کے بعد میت کو تلقین کرنے میں علماء کے کئی اقوال ہیں ظاہر روایت کے مطابق تلقین نہ کی جائے۔"

(9) صاحب الفتاوی السراجیہ راقم ہیں:

"تلقين الميت عند اكثر مشائخنا رحمهم الله ليس بشىء" (فتاوی سراجیہ، ص: 24)

"میت کو تلقین کرنا ہمارے اکثر مشائخ کے نزدیک کچھ نہیں۔"

مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے فقہ حنفیہ کی ظاہر الروایۃ کے اعتبار سے تلقین میت کا کوئی ثبوت نہیں جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں وہ اپنے مذہب سے بھی غافل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ188

محدث فتویٰ

تبصرے