سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کی میت کو غسل دینا

  • 21381
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 4406

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شوہر اور بیوی وفات کے بعد ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں؟ یعنی شوہر اگر پہلے فوت ہو جائے بیوی اسے غسل دے سکتی ہے؟ اسی طرح کیا بیوی پہلے فوت ہو جائے تو شوہر اسے غسل دے سکتا ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ جزاکم اللہ خیرا (ایک سائل، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زوجین میں سے کوئی ایک پہلے وفات پا جائے تو دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

"رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من جنازة من البقيع فوجدني وأنا أجد صداعا في رأسي وأنا أقول وارأساه فقال بل أنا يا عائشة وارأساه ثم قال: ما ضرك لو مت قبلي فكفنتك ثم صليت عليك ودفنتك"

(ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی غسل الرجل امراتہ و غسل المراۃ زوجھا: 1465 سنن الدارقطنی، کتاب الجنائز: 1809-1811، السنن الکبری للبیہقی، کتاب الجنائز، باب الرجل یغسل امراتہ اذا ماتت: 6/396۔ سنن الدارمی: 1/39۔ مسند ابی یعلی: 8/56)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک آدمی کے جنازے سے) بقیع سے واپس لوٹے۔ آپ نے مجھے اس حالت میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں ہائے ہائے کر رہی تھی۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ! بلکہ میرے سر میں بھی درد ہو رہا ہے۔ پھر فرمایا: تجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا اور تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھے دفن کروں گا۔"

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

"لو كنت استقبلت من أمري ما استدبرت ما غسل النبي صلى الله عليه وسلم غير نسائه"

(ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی غسل امراتہ و غسل المراۃ زوجھا: 1464، مسند ابی یعلی: 7/468۔ مسند احمد: 6/267۔ ابوداؤد، کتاب الجنائز: باب فی ستر المیت عند غسلہ: 3141۔ السنن الکبری للبیہقی: 3/398 مستدرک حاکم: 3/50۔ موارد الظمآن: 2157، شرح السنۃ: 5/308، مسند شافعی: 1/211)

"اگر مجھے پہلے یہ بات یاد آ جاتی جو مجھے بعد میں یاد آئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویوں کے سوا کوئی غسل نہ دیتا۔"

قاضی شوکانی رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں:

"فيه دليل على أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت وهي تغسله قياساً" (نیل الاوطار: 4/31)

اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت جب مر جائے تو اس کو اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے اور اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بھی خاوند کو غسل دے سکتی ہے۔ کیونکہ شوہر اور بیوی کا ایک پردہ ہے جس طرح مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے اسی طرح عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔

علامہ محمد بن اسماعیل صاحب سبل السلام رحمۃ اللہ علیہ راقم ہیں:

"فيه دلالة على أن للرجل أن يغسل زوجته وهو قول الجمهور"(سبل السلام: 2/741'742)

اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور یہی قول جمہور ائمہ محدثین رحمہم اللہ اجمعین کا ہے۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں کہ:

"أن أسماء بنت عميس غسلت أبا بكر الصديق حين توفى"

(المؤطا للامام مالک، کتاب الجنائز: 133، مع ضوء السالک، المصنف لعبدالرزاق: 3/410 الاوسط لابن المنذر: 5/335، شرح السنۃ: 5/308

جس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے انہیں غسل دیا۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

"أن أسماء بنت عميس غسلت أبا بكر الصديق حين توفى"

(دارقطنی، باب الصلاۃ علی القبر: 1833، السنن الکبری للبیہقی: 3/396 المصنف لعبد الرزاق: 3/410، شرح السنۃ: 5/309، مسند شافعی: 1/211، حلیۃ الاولیاء: 2/43 فی ترجمۃ فاطمۃ رضی اللہ عنہا و اسنادہ حسن)

"بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی کہ انہیں ان کا خاوند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دیں تو ان دونوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔"

علامہ احمد حسن محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"يدل على أن المراة يغسلها زوجها وهى تفسله بإجماع الصحابة لأنه لم ينقل من سائر الصحابة إنكار على أسماء و على فكان إجماعا" (حاشیه بلوغ المرام: 105)

"یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اس کا شوہر غسل دے سکتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اس لئے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر کسی بھی صحابی کا انکار منقول نہیں تو یہ مسئلہ اجماعی ہوا۔"

عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا تو سب اہل علم کے ہاں متفق علیہ ہے۔

(الاوسط لابن المنذر 334/5)

البتہ مرد کا اپنی بیوی کو غسل دینا مختلف فیہ ہے۔ جمہور ائمہ محدثین رحمھم اللہ اجمعین کے ہاں جائز و درست ہے اور یہی صحیح ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ امام ابوبکر محمد بن ابراہیم المعروف بابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے علقمہ، جابر بن زید، عبدالرحمٰن بن الاسود، سلیمان بن یسار، ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن، قتادہ، حماد بن ابی سلیمان، مالک اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ جیسے کبار ائمہ و محدثین رحمھم اللہ اجمعین سے یہی بات نقل کی ہے۔ (الاوسط: 5/335'336)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ185

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ