کیا صدقۃ الفطر نماز عید سے کچھ ایام پہلے نکالا جا سکتا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ فطر عید کی نماز سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(بخاری، کتاب الزکوۃ (1503) مسلم، کتاب الزکاۃ (984) بحوالہ مشکوۃ المصابیح (1815)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے اور لوگوں کو نماز عید کی طرف نکلنے سے پہلے اس کی ادائیگی کا حکم فرمایا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے نکالنا چاہیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر نکال دیتے تھے۔ صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ، باب صدقۃ الفطر علی الحر والمملوک میں ہے:
"صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عید فطر سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر دے دیتے تھے۔"
نافع سے روایت ہے کہ:
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر سے دو یا تین دن پہلے صدقہ فطر اس آدمی طرف بھیج دیتے تھے جو صدقہ جمع کرتا تھا۔"
اسی طرح ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر جمع کرنے کی ذمہ داری لگائی اور شیطان تین راتیں مسلسل اس ڈھیر سے چوری کے لئے آتا رہا بالآخر اس نے تیسری بار آیۃ الکرسی بتا کر جان چھڑائی جیسا کہ تفصیل کے ساتھ صحیح البخاری کتاب الوکالۃ (2311) میں موجود ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
"ويدل على ذلك أيضا ما أخرجه البخاري في الوكالة وغيرها عن أبي هريرة ، قال : وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان الحديث . وفيه أنه أمسك الشيطان ثلاث ليال ، وهو يأخذ من التمر ، فدل على أنهم كانوا يعجلونها" (فتح الباری 3/376'377)"نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر نکالنے پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے امام بخاری نے کتاب الوکالہ وغیرھا میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ فطر کی حفاظت پر مامور فرمایا۔" الحدیث۔
اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے تین راتیں شیطان کو کھجوریں چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ صحابہ کرام صدقہ فطر نکالنے میں جلدی کرتے تھے۔ لہذا نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر ادا کرنا صحیح و درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب