آپ نے مجلہ الدعوۃ جولائی 2002 اور ہفت روزہ غزوہ 23 تا 29 ربیع الثانی 1423ھ میں لکھا کہ "جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے تو اسے چار رکعت نماز ادا کرنی چاہیے" آپ نے اس فتویٰ کے جواب میں ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث جلد نمبر 46 شمارہ نمبر 23 کے ص 10 تا 12 میں ابو خزیمہ محمد حسین ظاھری صاحب آف اوکاڑہ نے لکھا ہے کہ "نماز جمعہ کے فوت ہو جانے پر صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے والی روایت تاریخ اصبہان ابو نعیم اصبہانی میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے" پھر اس کے بعد روایت درج کر کے لکھا ہے کہ "یہ روایت سندا موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے جیسا کہ کتب اصطلاحات المحدثین میں صراحت موجود ہے شیخنا شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثابت ہے" اور انہوں نے آپ کے پیش کردہ دلائل کا رد کیا ہے آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں صحیح صورتحال سے آگاہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین (ابو حنظلہ۔ لاہور)
ہمارے نزدیک صحیح اور درست بات یہی ہے کہ جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے وہ نماز ظہر ادا کرے گا جمعہ فوت ہونے کی صورت میں نماز جمعہ ہی ادا کرنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں جیسا کہ ہم آگے چل کر ذکر کریں گے اس سلسلہ میں ہم نے چند آثار صحابہ پیش کیے جن میں سے ایک اثر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے:
(المصنف لعبد الرزاق 3/234 (5471) المحلی لابن حزم 5/75 بیہقی 3/204 المدونۃ الکبری، باب فیمن ادرک رکعۃ یوم الجمعۃ 1/137 الاوسط لابن المنذر 4/101 ابن ابی شیبہ 1/461 (5334)
"جب آدمی جمعہ والے دن ایک رکعت پا لے تو وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ادا کر لے اگر لوگوں کو جلسہ کی حالت میں پا لے تو چار رکعات ادا کر لے۔"
اس روایت کی سند بالکل صحیح اور سنہری ہے امام عبدالرزاق نے اسے بطریق معمر عن ایوب عن نافع ان ابن عمر قال: روایت کیا ہے
معمر بن راشد ثقہ ثبت فاضل ہیں۔
(تقریب مع تحریر 3/403)
اور ایوب سختیانی ثقہ ثبت حجۃ من کبار الفقہاء العباد ہیں (تقریب مع تحریر 1/159)
نافع ابو عبداللہ المدنی مولی ابن عمر ثقہ ثبت فقیہ مشہور (تقریب مع تحریر 4/9)
اس صحیح اثر کو ظاہری صاحب نے چھوا تک نہیں امام بغوی رحمہ اللہ شرح السنۃ 4/273 میں رقمطراز ہیں کہ"جو شخص امام کو نماز جمعہ میں پا لے۔ اگر تو اس کے ساتھ ایک مکمل رکعت پا لے تو اس نے جمعہ پا لیا پھر جب امام سلام پھیر دے تو اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملا لے تو جمعہ مکمل ہو گیا۔ اور اگر امام کے ساتھ مکمل ایک رکعت نہ پائے جیسا کہ دوسری رکعت میں امام کو رکوع کے بعد اٹھنے کی صورت میں پائے تو اس کا جمعہ فوت ہو گیا اب اس پر واجب ہے کہ وہ چار رکعات نماز ادا کرے۔
اس لیے کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس آدمی نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز کو پا لیا۔"
(مؤطا فی وقوت الصلاۃ، باب من ادرک رکعۃ من الصلاۃ، بخاری فی مواقیت الصلاۃ، مسلم، کتاب المساجد (607)
اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ یہ بات عبداللہ بن مسعود، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنھم سے بیان کی گئی ہے اور سعید بن المسیب، علقمہ، اسود، عروہ، حسن بصری، زھری، ثوری، مالک، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راھویہ کا یہی قول ہے۔
امام بغوی کی توضیح سے بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے اس پر چار رکعات ادا کرنا لازم ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے۔ ابو نضرۃ کہتے ہیں:
(عبدالرزاق (5482) 3/236)
ایک آدمی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس نے کہا: جس آدمی کا جمعہ فوت ہو جائے وہ کتنی نماز ادا کرے؟ عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا جمعہ کیوں فوت ہوتا ہے؟ جب آدمی پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: بہر کیف اگر میرا جمعہ فوت ہو جاتا تو میں چار رکعات ادا کرتا۔
اس روایت کے تمام راوی اعلیٰ درجے کے ثقات ہیں اس میں ایک علت یہ ہے کہ بعض ائمہ نے یحیی بن ابی کثیر کو مدلس کہا ہے اور شیخ ظاھری جو مدلسین کے طبقات کے قائل ہیں جیسا کہ ان کے مضمون سے ظاہر ہے کے نزدیک یہ علت قادحہ نہیں ہے کیونکہ حافظ صلاح الدین العلائی نے جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص 130 اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین ص 36 میں انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے اور طبقہ ثانیہ کے بارے ان دونوں بزرگوں نے یہ قاعدہ لکھا ہے کہ:
" من احتمل الائمة تدليسه وخرجوا له فى الصحيح وان لم يصرح بالسماع وذلك اما لإمامة او لقلة تدليسه فى جنب ما روى او لانه لا يدلس الا عن ثقه "طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور صحیح میں ان کی حدیث کی تخریج کی ہے اگرچہ سماع کی تصریح نہ کی گئی ہو اور یہ ان کی امامت یا روایت میں قلت تدلیس کی وجہ سے ہے یا اس لیے کہ وہ ثقہ کے سوا کسی سے تدلیس نہیں کرتے۔
اور یحیی بن ابی کثیر کے بارے امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
" لا يحدث الا عن ثقه ""یہ ثقہ کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے۔"
(تھذیب رقم (8806) الجرح والتعدیل 9/142)
لہذا یہ روایت بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کی شاھد ہے اور جس کا جمعہ فوت ہو جائے اس کے لیے چار رکعات ادا کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت درج کی کہ:
"جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملا لے اور جس کی دو رکعت فوت ہو جائیں وہ چار رکعت ادا کرے۔" اسے طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد، کتاب الصلوۃ باب فیمن ادرک من الجمعۃ رکعۃ (3171) 2/420)
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ظاہری صاحب نے لکھا اس روایت کا مدار ابو اسحاق السبیعی پر ہے پھر انہوں نے طبرانی کبیر 9545 تا 9549 سے اس کے مختلف طرق ذکر کیے اور میرے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے ابو اسحاق السبیعی کو مدلس گردانتے ہوئے روایت کو ضعیف قرار دیا۔ اور لکھا کہ "معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کی مستدل روایات ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں امام ھیثمی کا قول اس کی سند حسن ہے ان کا وہم ہے اسی طرح سے دوسری روایت کے متعلق ان کا فرمان اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے مردود وغیرہ حسن ہے اور شیخ صاحب کا امام ھیثمی کے قول پر اعتماد محض حسن ظن ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔"
یاد رہے کہ علامہ ھیثمی کی تحسین پر راقم نے جو اعتماد کیا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طبرانی کبیر رقم کے پاس موجود نہیں دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ اس میں ابو اسحاق السبیعی ہیں جو کہ مدلس ہیں لیکن اس روایت میں جو بات ذکر کی گئی ہے اس کے کئی ایک شواہد ہیں جیسا کہ اوپر بسند صحیح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر ہے جس پر ظاہری صاحب نے خاموشی اختیار کی ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کر سکے اور نہ ہی کوئی علت قادحہ اس کے ضعف کی پیش کر سکتے ہیں۔ اس اثر کو شواھد کی بنا پر راقم حسن سمجھتا ہے اور یہ بحمداللہ وہم نہیں ہے اس اثر کو جہاں علامہ ہیثمی نے حسن قرار دیا ہے وہاں سید سابق نے بھی فقہ السنہ 1/275 میں حسن قرار دیا ہے۔ اور علامہ ہیثمی پر اعتماد صرف حسن ظن نہیں بلکہ دلیل کی بنیاد پر ہے۔ پھر ظاہری صاحب لکھتے ہیں "حضرت شیخ فرماتے ہیں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملا لے اگر لوگوں کو بیٹھا ہوئے پائے تو ظہر کی چار رکعت ادا کرے۔" (دارقطنی)
اس کی سند میں یاسین بن معاذ متروک راوی ہے یاسین بن معاذ کی امام زھری رحمۃ اللہ علیہ سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں" پھر وضاحت کے عنوان سے رقمطراز ہیں "فضیلۃ الشیخ کا یہ فرمانا کہ یاسین بن معاذ کی امام زھری سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں اس کے لیے چنداں مفید نہیں کیونکہ اصل روایت کے بیان کرنے میں ہی اختلاف ہے اور جس روایت کی متابعت ثابت کی جا رہی ہے اس کے الفاظ ہی غیر محفوظ ہیں۔" پھر اس کے بعد ظاہری ابن حجر کی طویل عبارت التلخيص الحبيرکے حوالے سے ذکر کرتے ہیں:
ظاہری صاحب کا اس روایت پر بحث کرنا اور ابن حجر کی التلخيص کا حوالہ دینا تحصیل حاصل اور ان کی ظاہریت کا شاخسانہ ہے کیونکہ راقم نے مجلۃ الدعوۃ جولائی 2002 ص 42 میں لکھا ہے کہ "البتہ اس مسئلہ کے بارے مرفوع روایت ضعیف ہے جس کی مختصر سی توضیح درج ذیل ہے اس کی سند میں یاسین بن معاذ متروک راوی ہے یاسین بن معاذ کی امام زھری سے اس روایت میں کئی ایک ضعفاء متابع ہیں۔
(جیسا کہ صالح بن ابی الاخضر (دارقطنی 1584) سلیمان بن ابی داؤد الحرانی (دارقطنی 1587) اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (التلخیص الحبیر 593 کتاب صلوۃ الجمعہ)
راقم کی اس عبارت سے یہ بات عیاں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مسئلہ میں مرفوع روایت ضعیف ہے ہم نے اس پر ضعف کا حکم لگا کر ال التلخیص کی طرف راہنمائی کی ہے اس لیے اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ظاہری صاحب کا التلخیص سے مفصل عبارت ذکر کرنا تحصیل حاصل نہیں تو اور کیا ہے محض مضمون کو طوالت دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے البتہ اس روایت کے الفاظ کو غیر محفوظ قرار دینے کے لیے جو زور صرف کیا گیا ہے اور ائمہ کی توضیحات بحوالہ التلخیص ذکر کی گئی ہیں ان کا مطلوب یہ ہے کہ حدیث ابی ہریرہ کے اصل الفاظ:
" من ادرك الصلاة ركعة فقد ادركها " ہیں اور " من ادرك من الجمعة ركعة " غیر محفوظ ہیں یعنی اس حدیث میں عام نماز کے بارے ہے کہ جس نے ایک رکعت پا لی اس نے نماز کو پا لیا۔ جمعہ کے بارے نہیں ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی۔ تو یاد رہے کہ اس سلسلہ میں حدیث ابی ہریرۃ تو سندا ضعیف ہے جیسا کہ ہم نے خود اپنے مضمون میں اس کی مختصر سی وضاحت کی تھی لیکن " من ادرك ركعة من يوم الجمعة فقد ادركها وليضف اليها اخرى "
"جس نے جمعہ کے دن ایک رکعت پا لی تو اس نے جمعہ کو پا لیا وہ اس کے ساتھ پچھلی رکعت ملا لے۔" کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے۔
یہ روایت سنن الدارقطنی (1592) طبرانی اوسط (4200) طبرانی صغیر اور مجمع البحرین فی زوائد المعجمین (995) میں موجود ہے طبرانی کی سند یوں ہے۔
" حدثنا على ثنا الجراح بن مليح ثنا ابراهيم بن سليمان الدباس ثنا عبدالعزيز بن مسلم عن يحيي بن سعيد عن نافع عن ابن عمر رضى الله عنه "1۔ طبرانی کے استاذ علی بن سعید بن بشیر بن مھران الرازی ہیں جن کے متعلق امام ذھبی نے لکھا ہے:
"حافظ رحال جوال "میزان 3/131 اور تذکرۃ الحفاظ 2/225 میں لکھتے ہیں " الحافظ البارع ابو الحسن الرازى نزيل مصر و محدثها " نیز دیکھیں سیر اعلام النبلاء 14/145'146 تاریخ الاسلام 210 وفیات 291-300ھ)
مسلمہ بن قاسم فرماتے ہیں:
" وكان ثقة عالما بالحديث حدثنى عنه غير واحد "(لسان المیزان (5871) 5/34 ط جدید)
ابو یعلیٰ الخلیلی کہتے ہیں:
"حافظ متقن (الارشاد 1/437) ابن یونس کہتے ہیں " كان يفهم ويحفظ " (لسان المیزان 5/34) البتہ امام دارقطنی نے اسے غیر ثقہ کہا ہے۔ سؤالات حمزہ السھمی (348) لہذا جمہور ائمہ کے ہاں یہ ثقہ ہے۔
2۔ الجراح بن ملیح البھرانی: امام نسائی نے لیس بہ باس امام ابو حاتم اور امام ابن عدی نے اسے صالح الحدیث قرار دیا ہے اسی طرح ابن معین نے بھی لیس بہ باس کہا ہے۔
(تھذیب 1/365 الجرح والتعدیل 2/524) ابن حجر نے اسے صدوق قرار دیا ہے (تقریب مع تحریر 1/212)
3۔ ابراہیم بن سلیمان الدباس کو ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل 2/103) میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے اور ابن حبان نے کتاب الثقات 8/69 میں ذکر کیا ہے۔
4۔ عبدالعزیز بن مسلم القسملی ثقہ عابد (تقریب مع تحریر 2/372) ابن معین، ابو حاتم، عجلی، ابن نمیر، ذھبی اور نسائی وغیرھم نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ (تہذیب 3/473)
باقی یحیی بن سعید اور نافع مشہور ثقات راویوں میں سے ہیں اور عبدالعزیز بن مسلم سے روایت کرنے میں ابراہیم بن سلیمان الدباس کی عیسی بن ابراہیم الشعیری نے متابعت کر رکھی ہے اور عبدالعزیز بن مسلم کی یحیی بن سعید سے عبداللہ بن نمیر نے متابعت کی ہے ملاحظہ ہو دارقطنی رقم (1592) عیسی بن ابراہیم الشعیری ثقہ ہیں تحریر تقریب التہذیب 3/135 اور عبداللہ بن نمیر کتب ستہ کے راوی ثقہ صاحب حدیث من اھل السنۃ ہیں (تقریب مع تحریر 2/279)
علامہ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں رقمطراز ہیں " فالحديث عندى صحيح مرفوعا " یہ حدیث میرے نزدیک مرفوعا صحیح ہے (ارواء الغلیل 3/89)
اور یہی حدیث بقیہ بن الولید کی سند سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے:
"جس نے نماز جمعہ یا دیگر نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔"
(سنن ابن ماجہ (1123) سنن النسائی (556) السنن الکبریٰ للنسائی (1456) دارقطنی (1590) المسند الجامع 10/149 (7349)
بقیہ اگرچہ مدلس ہیں لیکن ان کی تصریح بالسماع مسلسل موجود ہے جیسا کہ المسند الجامع سے ظاہر ہے علامہ البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ اور الاجوبۃ النافعہ ص 49 میں صحیح قرار دیا ہے بلکہ لکھتے ہیں:
" وجملة القول ان الحديث بذكر الجمعة صحيح من حديث ابن عمر مرفوعا و موقوفا لامن حديث ابى هريرة والله تعالىٰ ولى التوفيق " (ارواء 3/90)خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمعہ کے ذکر کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح صحیح ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت نہیں اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے اسی طرح شیخ عبدالقدوس حفظہ اللہ محقق البحرین نے بھی اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے 2/231۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بلوغ المرام باب الجمعہ (416) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے یہ روایت مرسلا و موصولا اور مرفوعا و موقوفا دونوں طرح مروی ہے اور صحیح ہے جیسا کہ علامہ البانی نے فرمایا ہے۔ واللہ اعلم
باقی رہا کسی روایت کو تعدد طرق کی بنا پر حسن قرار دینا تو یاد رہے اگر اسانید میں راوی متھم بالكذب ہوں یا ضعف شدید ہو تو کثرت اسانید سے بھی ضعف کا تدارک اور انجبار نہیں ہوتا البتہ ضعف خفیف کثرۃ اسانید سے دور ہو جاتا ہے اور روایت حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ضعف شدید نہیں ہے بلکہ اس کے رواۃ صحیح اور بعض حسن درجے کے ہیں۔ ہماری مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ جس شخص کی نماز جمعہ فوت ہو جائے تو چار رکعات ادا کرے گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کثیر ائمہ محدثین سے یہی بات منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں اس بات کا کوئی بھی مخالف نہیں۔ من ادعی فعلیہ البیان راقم نے آخر میں امام ابن ھبیرۃ کی کتاب الافصہاح 1/125 موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی 2/701 رقم 2463 سے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ جب کسی کی نماز جمعہ فوت ہو جائے تو وہ ظہر کی نماز ادا کرے ظاہری صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ دعویٰ اجماع غلط ہے اور اس پر جو دلائل پیش کرتے ہیں ان کا محاکمہ ملاحظہ کریں۔
1۔ امیر المومنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں:
"کہ خطبہ دو رکعتوں کی جگہ پر ہے جس کا خطبہ فوت ہو جائے وہ چار رکعتیں ادا کرے"
(مصنف عبدالرزاق 3/237'238 مصنف ابن ابی شیبہ 2/128)
اولا:یہ روایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ایک سند میں عمرو بن شعیب عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کر رہے ہیں عمرو بن شعیب کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ان کی عمر رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے جیسا کہ مراسیل رازی ص 123 میں مرقوم ہے دوسری سند میں یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں حدثت عن عمر بن الخطاب "مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔
یحیی بن ابی کثیر اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کون سا راوی ہے جس نے یہ بیان کیا ہے اس کا ثبوت ظاہری صاحب کے ذمہ ہے کیونکہ یحیی اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے لہذا اس روایت کا عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثبوت ظاہری صاحب کے ذمہ ہے۔
ثانیا: ظاہری صاحب نے اس منقطع اثر کو سمجھنے میں ظاہریت سے کام لیا ہے اگر کچھ غوروخوض سے کام لیتے تو اسے قطعا ہماری مخالفت میں پیش نہ کرتے کیونکہ یہ اثر ہماری تائید کرتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ ائمہ میں اختلاف یہ ہے کہ جمعہ کیسے فوت ہوتا ہے خطبہ فوت ہو جانے سے یا ایک رکعت فوت ہونے سے یا دوسری رکعت کا تشہد فوت ہونے سے اس میں اختلاف نہیں کہ جمعہ فوت ہو جائے تو دو رکعت ادا کرنی ہیں یا چار۔
مذکورہ اثر سے جمعہ کے فوت ہو جانے سے اکیلے جمعہ ادا کرنے پر دلیل لینا ظاہری صاحب کے عدم تفقہ کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ منقطع اثر بھی یہی بات بتاتا ہے کہ خطبہ فوت ہونے سے جمعہ فوت ہو جاتا ہے اور جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ چار رکعات ادا کرے لہذا یہ ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے اور ظاہری صاحب کے موقف کی تردید جسے وہ بلا سوچے سمجھے ہماری رد میں پیش کر رہے ہیں اسی طرح عطاء طاؤس و مجاہد کا قول بھی اس موقعہ پر پیش کرنا درست نہیں۔
دوسری دلیل یہ ذکر کرتے ہیں کہ "عبداللہ بن مسعود کا یہ قول " من ادرك التشهد فقد ادرك الصلاة " کہ جس نے تشہد پا لیا اس نے نماز پا لی بھی دعویٰ اجماع کو باطل قرار دیتا ہے۔
اولا: ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ابن ابی شیبہ (5359) میں جس سند سے مروی ہے وہ قابل حجت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی مدلس و مختلط ہے اور اس کا استاذ عامر بن شقیق لین الحدیث ہے۔
(نھایۃ الاغتباط۔ طبقات المدلسین۔ تقریب)
ظاہری صاحب کو چاہیے اس کی تصریح بالسماع اور قبل از اختلاط اس روایت کو بیان کرنا ثابت کریں۔
ثانیا: جس شخص کا جمعہ فوت ہو جائے وہ نماز ظہر ادا کرے اس مسئلہ کی تردید بھی اس میں موجود نہیں بلکہ یہ ضعیف قول اس بارے میں ہے کہ جمعہ پانے کے لئے حالت تشہد میں ملنا کافی ہے نہ کہ جمعہ فوت ہو جائے تو چار رکعات ادا نہ کرے اور دو ادا کرے۔ فیا للعجب
اجماع کی تردید میں امام احمد کا فرمان " من ادعى الاجماع فقد كذب " جس نے اجماع کا دعویٰ کیا اس نے جھوٹ بولا۔(ارشاد الفحول للشوکانی و کتب فقہ)
امام احمد بن حنبل بالکلیہ اجماع کے منکر نہیں تھے وہ کئی ایک مسائل پر اجماع کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ مسائل ابی داؤد اور فتویٰ ابن تیمیہ میں قراۃ فی الصلوۃ کے متعلق ان کا دعویٰ اجماع موجود ہے اور کتب فقہ میں اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں امام احمد کا اجماع کی نفی میں جو قول پیش کیا جاتا ہے یہ اپنے ظاہری معنی پر نہیں ہے جیسا کہ ظاہری صاحب نے سمجھ رکھا ہے بلکہ یہ علی طریق الورع ہے یا ایسے شخص کے حق میں ہے جس کو لوگوں کے احوال کی معرفت نہیں اور مذاھب کے بارے معلومات نہیں رکھتا اور بلا دلیل ہی دعویٰ اجماع کر دیتا ہے ایسا آدمی جھوٹا ہے جیسا کہ بشر مریسی وغیرہ امام احمد کا موقف تفصیلا معلوم کرنا ہو تو دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی کتاب "اصول مذھب الامام احمد" ملاحظہ کریں۔
ظاہری صاحب لکھتے ہیں "معلوم ہوا کہ صحابہ کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جمعہ فوت ہونے کی صورت میں ظہر ادا کی جائے یا جمعہ نیز عمر بن خطاب اور تابعین جیسا کہ ذکر ہوا صرف خطبہ کے فوت ہونے پر چار رکعت پڑھنے کے قائل ہیں جس سے دعویٰ اجماع باطل ثابت ہوا"
راقم کا ظاہری صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ کسی بھی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ ایسا اثر ثابت کریں جس میں یہ صراحت ہو کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ صرف دو رکعت نماز جمعہ ادا کرے یعنی اکیلا ہی جمعہ پڑھ لے اور جو دلائل ظاہری صاحب نے عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ذکر کیے ہیں ان کا محاکمہ اوپر کر دیا گیا ہے کہ ان کی اسانید بھی درست نہیں اور مراد و مقصود بھی وہ نہیں ہے جو سمجھا گیا ہے۔
ظاہری صاحب نے نماز جمعہ فوت ہو جانے پر جمعہ ہی ادا کرنے کے بارے جو روایت درج کی ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ اصبہان 2/200 میں ہے کہ "موسی بن سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس سے سوال کیا کہ اگر میرا بطحا جگہ میں رہتے ہوئے جمعہ فوت ہو جائے تو میں کتنی رکعت ادا کروں تو انہوں نے فرمایا دو رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (یہی) ہے یہ روایت سندا موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے جیسا کہ کتب اصطلاحات المحدثین میں صراحت موجود ہے شیخنا شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثابت ہے۔ انتہی
اولا: یہ ظاہری صاحب کا بھی شیخ بدیع پر محض حسن ظن ہے جس کی قطعا کوئی حقیقت نہیں اور یہ ان کے غرائب میں سے ہے۔
ثانیا: ظاہری صاحب پر لازم ہے کہ وہ اس روایت کی سند میں محمد بن نوح بن محمد کی توثیق ثابت کریں اور احمد بن الحسین کا بادلیل تعین کریں جب تک اس روایت کے راویوں کا تعین اور توثیق ثابت نہیں کر لیتے اتنی دیر تک اس روایت کو بطور دلیل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ اکیلا جمعہ ہی ادا کرے گا اور دو رکعت پڑھے گا ان کے پاس اس موقف پر کوئی پختہ دلیل موجود نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہی بات ثابت ہے کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ چار رکعات ادا کرے اور صحابہ میں اس بات کا مخالف کوئی ایک بھی نہیں ہے من ادعی فعلیہ البیان۔
یہ سطور مختصر سے وقت میں تحریر کر دی ہے اگر ظاہری صاحب نے اس پر کچھ لکھا تو پھر اللہ کی توفیق سے مفصل جواب تحریر کریں گے۔ ان شاءاللہ
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب