بعض لوگ نماز مغرب کے بعد چھ رکعات صلاۃ الاوابین کی ادا کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرنے کو صلاۃ الاوابین قرار دینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ بعض احناف نے ان چھ رکعات کو صلاۃ الاوابین کہا ہے جیسا کہ مفتی جمیل احمد نذیری نے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز" ص 368 میں ابو القاسم رفیق دلاوری نے "عماد الدین" ص 437 میں ذکر کیا ہے۔
حالانکہ یہ بات صحیح احادیث کے خلاف ہے صحیح احادیث میں صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلاۃ الاوابین کا وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں ریت میں گرم ہونے لگتے ہیں۔"
(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب صلاۃ الاوابین حین ترمض الفصال 144'143/748 مسند احمد 32/9 (19264) ابن ابی شیبہ 2/406 ط ھند شرح السنہ 4/145 (1010) بیہقی 3/49 مسند طیالسی (687) دارمی، باب فی صلاۃ الاوابین (1498) طبرانی کبیر (5113) ابن حبان (2539) ابن خزیمہ (1227) ابو عوانہ 2/270 طبرانی اوسط (230) طبرانی صغیر (100) معرفۃ السنن والآثار (5587) عبدالرزاق (4832)
اس مسئلہ میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز ضحیٰ کی اواب ہی حفاظت کرتا ہے۔"
اور پھر فرمایا: یہی صلاۃ الاوابین ہے۔
(المستدرک للحاکم (1223) 1/622 ط جدید صحیح ابن خزیمہ (1224) طبرانی اوسط (3877) ابن عدی 6/2205)
اس حدیث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے امام ابوبکر ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ اسماعیل بن عبداللہ بن زرارہ الرقی کی اس روایت کو موصول بیان کرنے میں متابعت نہیں کی گئی۔ دراوردی نے اسے محمد بن عمرو عن ابی سلمہ سے مرسل بیان کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے محمد بن عمرو عن ابی سلمہ سے ابوسلمہ کا قول بیان کیا ہے جب کہ علامہ الالبانی فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے کیونکہ ابن زرارہ کی متابعت کی گئی جیسا کہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (1994) میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ:
مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین کاموں کی وصیت کی ہے میں انہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
1۔ میں وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں۔
2۔ اور میں صلاۃ الضحی کی دو رکعت نہ چھوڑوں اس لیے کہ یہ صلاۃ الاوابین ہے۔
3۔ اور ہر ماہ تین روزے رکھوں۔
اس کی سند میں سلیمان بن ابی سلیمان ہے جسے مجہول قرار دیا گیا ہے لیکن یہ روایت بطور شاھد ذکر کی ہے کیونکہ اوپر ذکر کردہ صحیح روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے اور اس سیاق کے علاوہ یہ صحیح سند کے ساتھ مسند احمد (7512) وغیرہ میں موجود ہے۔
نماز مغرب کے بعد چھ رکعات کی ادائیگی کے متعلق جامع ترمذی سے جو روایت پیش کی جاتی ہے اس پر امام ترمذی نے خود جرح کی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابن ماجہ (1167'1374) ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب (435)
"جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات نماز پڑھی ان کے درمیان اس نے کوئی بری بات نہیں کی۔ اس کو بارہ سال کے برابر ثواب ملے گا۔"
امام ترمذی فرماتے ہیں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت غریب ہے ہم اس کو زید بن الحباب از عمر بن ابی خثعم کی سند کے علاوہ کسی اور طریق سے نہیں پہچانتے اور میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکر الحدیث ہے اور اسے بہت زیادہ ضعیف قرار دیا۔
اس سلسلے میں ایک روایت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے بھی پیش کی جاتی ہے کہ محمد بن عمار کہتے ہیں میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مغرب کے بعد چھ رکعات نماز ادا کرتے دیکھا میں نے کہا اے ابا جان یہ نماز کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا:
"میں نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ نے فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات نماز ادا کی اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوئے۔"
(مجمع الزوائد، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل المغرب و بعدھا (3380) 2/483 ط جدید)
علامہ ھیثمی فرماتے ہیں اسے امام طبرانی نے تینوں معاجم میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے روایت کرنے میں صالح بن قطن البخاری متفرد ہے میں کہتا ہوں میں نے اس کے حالات نہیں پائے۔ امام ابن الجوزی نے العلل المتناھیہ (776) میں اسے ذکر کر کے بتایا ہے کہ اس میں مجہول راوی ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں محمد بن عمار بن محمد عمار بن یاسر نے اپنے باپ سے انہوں نے اس کے دادا سے انہوں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مغرب کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت میں روایت بیان کی ہے اس سے صالح بن معلیٰ السمان نے روایت کی ہے امام ابن الجوزی نے العلل میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محمد بن عمار اور اس کا باپ دونوں مجہول ہیں۔ (لسان المیزان 5/318)
اسی طرح بعض لوگوں نے نماز مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک کے وقت نماز پڑھنے کو صلاۃ الاوابین قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ اثر پیش کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
(ابن ابی شیبہ 2/197 بحوالہ نماز مسنون از صوفی عبدالحمید سواتی ص 565)
"صلاۃ الاوابین جب مغرب کی نماز پڑھ کر نمازی فارغ ہوں تو اس سے لے کر اس وقت تک ہوتی ہے جب عشاء کا وقت آ جائے اس روایت سے استدلال بھی درست نہیں۔"
(1) یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے جو کہ اوپر ذکر کی گئی ہے۔
(2) سند کے لحاظ سے یہ روایت کمزور ہے اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے اسے امام احمد وغیرھما نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ (تھذیب، تقریب مع تحریر 435/3)
مغرب کی نماز ادا کرنے کو صلاۃ الاوابین قرار دینے والوں کی دوسری دلیل یہ ہے:
(شرح السنۃ 3/474 کنز العمال 8/35 بحوالہ نماز مسنون 566)
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ بھی صلاۃ الاوابین ہے۔"
امام بغوی نے اسے صیغہ تمریض "روی" سے بیان کیا ہے جو اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ لہذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں۔
اس کے علاوہ شرح السنۃ 3/474 میں ایک اثر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے ضعیف ہے عائشہ رضی اللہ عنہا سے 20 رکعات والی روایت یعقوب بن الولید کی وجہ سے من گھڑت ہے کیونکہ یہ روایات گھڑتا تھا۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح اور مرفوع حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صلاۃ الضحی ہی صلاۃ الاوابین ہے نماز مغرب کے بعد چھ یا بیس رکعات کو صلاۃ الاوابین قرار دینا درست نہیں۔ اس کے متعلق مروی آثار ضعیف اور کمزور ہیں۔ اور صحیح احادیث کے خلاف ہیں صوفی عبدالحمید سواتی حنفی نماز مسنون 563 میں لکھتے ہیں:
"صحیح احادیث میں صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے" لہذا ہمیں صحیح حدیث کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے اور صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین سمجھنا چاہیے اور صلاۃ الضحی دو رکعت (مسلم) چار اور آٹھ رکعات تک ثابت ہے جیسا کہ مسلم وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب