آج کل لشکر طیبہ والوں کے ہاں مساجد میں اکثر قنوت نازلہ کی جاتی ہے جس پر ہمارے حنفی بھائی بڑے پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیا احناف کے ہاں اس کا کوئی ثبوت ہے؟ (خالد۔ لاہور)
قنوت نازلہ کے بارے میں کتب احادیث میں بے شمار دلائل موجود ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں" جلد اول میں موجود ہے۔
ہمارے حنفی بھائیوں کا بھی راجح موقف یہی ہے کہ قنوت نازلہ جائز ہے۔ صوفی عبدالحمید سواتی حنفی رقمطراز ہیں "جمہور فقہاء احناف کہتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ کا پڑھنا درست ہے چاہے التزام کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اور جتنی احادیث اس بارہ میں وارد ہوئی ہیں ان کا صحیح محل یہی ہے۔ (نماز مسنون کلاں: ص 251)
پھر اس کے بعد ص 252 ص 253 پر انہوں نے قنوت کے الفاظ ذکر کئے ہیں جو ان کے استاذ مولانا حسین احمد مدنی اکثر صبح کی نماز میں پڑھتے تھے۔ اسی طرح ہفت روزہ "زندگی" جلد نمبر 21 شمارہ 20'21 تا 27 اکتوبر 2001 میں ص 4 پر جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا عبدالرحمٰن اشرفی کا انٹرویو طبع ہوا ہے جس میں قنوت کے بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ "مکے والوں کی زیادتیوں کے خلاف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسلسل کئی مہینے یہ دعا پڑھی تھی جس میں ظالموں کے لئے بددعا کی جاتی ہے سو ہم نے بھی جامعہ اشرفیہ میں اس کا اہتمام کروا دیا ہے۔ اب ہمارے ہاں یہ مسلسل پڑھی جا رہی ہے اور آپ کے ذریعے سے میں تمام علماء کرام سے بھی کہوں گا کہ وہ اپنے حلقوں میں اس کا اجراء فرمائیں ہمارے مفتی صاحب نے تو یہ فتویٰ جاری کیا کہ حالات موجودہ میں طالبان کی حمایت میں قنوت نازلہ پڑھنا واجب ہے۔"
عبدالرحمٰن اشرفی صاحب کی توضیح سے معلوم ہوا کہ قنوت نازلہ بالکل جائز اور درست ہے بلکہ حالات موجودہ میں تو ان کے علماء و مفتیان نے اسے واجب کر دیا ہے اور جامعہ اشرفیہ میں انہوں نے اس کے عملا اہتمام کا بھی ذکر کیا ہے یہاں یہ بات یاد رہے کہ قنوت نازلہ صرف نماز صبح میں ہی نہیں بلکہ پانچوں نمازوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہے اس لئے لشکر طیبہ کے بھائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، افغانستان، کشمیر، فلسطین، بوسنیا وغیرھا ممالک میں کفار کے حملوں اور دہشت گردوں کے خلاف اور مسلمانان عالم کی حمایت و نصرت میں جو قنوت کرتے ہیں، بالکل صواب و درست ہے اور اس پر احادیث صحیحہ صریحہ دلالت کرتی ہیں۔
والله اعلم بالصواب وعلمه اتم واكملھذا ما عندی والله اعلم بالصواب