میں جب مسجد میں داخل ہوا تو جماعت ہو چکی تھی میں نے تکبیر کہی اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی پھر ایک آدمی آیا وہ میرے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا جب کہ میں نے اس کی نیت نہیں کی تھی تو کیا اس طرح دوسرے آدمی کے مل جانے سے جماعت ہو سکتی ہے۔ اس مسئلہ کی صحیح راہنمائی کریں اور اجر پائیں؟ (یاسر کبیر۔ گجرات)
آدمی جب اکیلا نماز ادا کر رہا ہو تو اس کے ساتھ ایک یا زیادہ آدمی مل جائیں تو وہ امام کی نیت کر لیں اور جماعت کروا لیں اس سے نماز میں اجر بڑھے گا اور جماعت کا ثواب مل جائے گا۔
جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
"میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات بسر کی تو رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز پڑھنے لگے میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے اٹھا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو تو دوسرا آدمی اس کے ساتھ مل کر کھڑا ہو جائے تو جماعت ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے اور یوں باب باندھا ہے:
"یعنی جب امام نے امامت کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آ جائے تو وہ ان کی امامت کرا دے۔"
اسی طرح صحیح مسلم میں ایک طویل روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے کہ جابر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ کے بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا پھر جبار بن صخر آئے انہوں نے وضو کیا وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا تو انہوں نے آپ کے پیچھے صف قائم کر لی۔
(صحیح مسلم، کتاب الزھد: 3010)
یہ حدیث بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایک آدمی نماز ادا کر رہا ہو تو بعد میں آنے والے اگر اس کی نماز میں مل جائیں تو جماعت ہو سکتی ہے۔ اگر ایک آدمی آئے تو امام کی دائیں جانب کھڑا ہو گا دو یا زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف بنا لیں گے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نوافل میں تو اس طرح جائز ہے مگر فرائض میں نہیں جب کہ صحیح اور درست بات یہ ہے کہ فرائض و نوافل دونوں میں جائز ہے کیونکہ نماز کی ادائیگی کا طریقہ فرائض و نوافل سب کے لئے ایک جیسا ہے الا یہ کہ دلیل صحیح کے ساتھ کسی بات کی تخصیص ہو جائے۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب