سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ثبوت

  • 21366
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1477

سوال

(26) وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ثبوت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بعد از نماز عشاء وتر پڑھنے کے بعد دو رکعت ادا کرنے کا جواز ملتا ہے مفصل حدیث نبوی سے روشنی ڈالئے۔ (ذوالفقار احمد۔ راھوالی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز وتر کی ادائیگی کے بعد بیٹھ کر دو رکعت پڑھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس کے متعلق کئی ایک احادیث صحیحہ موجود ہیں۔

(1) ۔۔ ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:

" سألتُ عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقالت: كان يُصلي ثلاثَ عشرة ركعةً، يُصلي ثمانَ ركعات، ثم يُوتِر، ثم يُصلي ركعتين وهو جالس، فإذا أراد أن يركع، قام فركع، ثم يُصلي ركعتين بين النداءِ والإِقامةِ مِن صلاة الصبح "

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا 126/738)

"میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے سوال کیا تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعات پڑھتے تھے آٹھ رکعتیں پڑھتے پھر وتر ادا کرتے پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے جب رکوع ادا کرتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے پھر صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت پڑھتے۔" (ابن ماجہ 1196)

(2) ۔۔ سعد بن ھشام کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے جب انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نو رکعت وتر اس طرح ادا کرتے کہ آٹھویں میں تشہد بیٹھتے اللہ کا ذکر، حمد اور دعا کرتے پھر سلام پھیرتے۔

" ثم يُصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد "

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا 139/736)

"پھر بیٹھ کر سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت پڑھتے۔"

امام نووی نے لکھا ہے کہ "اس حدیث کے ظاہر سے امام اوزاعی اور امام احمد نے وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کو مباح قرار دیا ہے اور امام مالک نے اس سے انکار کیا ہے۔

پھر فرماتے ہیں:

"قلت: الصَّوَاب : أَنَّ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ فَعَلَهُمَا صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْد الْوِتْر جَالِسًا ; لِبَيَانِ جَوَاز الصَّلَاة بَعْد الْوِتْر , وَبَيَان جَوَاز النَّفْل جَالِسًا , وَلَمْ يُوَاظِب عَلَى ذَلِكَ , بَلْ فَعَلَهُ مَرَّة أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ مَرَّات قَلِيلَة"

(شرح النووی علی صحیح الامام مسلم 6/19 مطبوعہ بیروت)

"میں کہتا ہوں کہ درست بات یہ ہے کہ ان دو رکعتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد بیٹھ کر پڑھنے کا جواز بیان کرنے کے لیے ادا کیا ہے اور اس پر دوام نہیں کیا بلکہ اسے ایک یا دو مرتبہ یا بہت تھوڑی دفعہ کیا ہے۔"

مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری فرماتے ہیں:

" فيه مشروعية ركعتين بعد الوتر عن جلوس "

(مرعاۃ المفاتیح 4/225)

"حدیث عائشہ میں وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کی مشروعیت ہے۔"

پھر دوسری حدیث " اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وِتراً "

"تم اپنی رات کی آخری نماز وتر بناؤ۔" پر بحث کر کے لکھتے ہیں:

" والراجع عندى ما ذهب اليه النووى ان الامر فى قوله اجعلوا الخ للندب لا للايجاب " (مرعاۃ المفاتیح 4/265)

"میرے نزدیک راجح بات وہی ہے جس کی طرف امام نووی گئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان " اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وِتراً " میں امر ندب کے لئے ہے وجوب کے لئے نہیں۔"

(3) ۔۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

" أن النبي صلى الله عليه وسلم ، ( كان يصلي بعد الوتر ركعتين خفيفتين وهو جالس )"

"بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کر دو ہلکی سی رکعتیں ادا کرتے تھے۔"

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا 1195 ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء لا وتران فی لیلۃ 471 مسند احمد 6/298'299 دارقطنی باب فی الرکعتین بعد الوتر 1666، 2/26 بیہقی 3/32 کتاب الوتر لمحمد بن نصر المروزی باب صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الوتر ص 311 الکامل لابن عدی 6/2410) اس کی سند میں میمون بن موس المرئی متکلم فیہ ہے۔

اسی طرح اس کے شیخ الحسن بن ابی الحسن البصری ثقہ و فاصل ہونے کے ساتھ کثیر الارسال اور مدلس ہیں۔

(تقریب ص 29 طبقات المدلسین ص: 29 قصیدہ ابی محمود المقدسی ص: 37 التبیین لاسماء المدلسین ص 346 التانیس بشرح منظومۃ الذھبی فی اھل التدلیس ص 23 النکت علی ابن الصلاح 2/631 جامع الحصیل ص: 194)

اور ان کی والدہ ام الحسن خیرہ کے بارے ابن حجر فرماتے ہیں:

مقبولہ (تقریب ص 468 تھذیب التھذیب 6/592)

جب کہ امام ابن حزم ایک مقام پر فرماتے ہیں:

" ام الحسن بن ابى الحسن وهى خيرة هو اسمها ثقة مشهورة "(المحلی 3/127)

"ام الحسن بن ابی الحسن کا نام خیرہ ہے اور یہ ثقہ مشہورہ ہیں۔"

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: ثقہ الثقات اور ان کی ایک روایت ذکر کر کے کہتے ہیں:

" وهذا اسناد كالذهب " (المحلی 4/220)

امام ابن حبان نے انہیں "کتاب الثقات" 4/216 میں ذکر کیا ہے۔

مذکورہ توضیح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی سند معلول ہے لیکن مختلف شواھد کی وجہ سے حسن اور اس کا ایک صحیح شاہد اوپر ذکر کردہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا ہے۔ علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (تحقیق الترمذی 2/335)

(4) ۔۔ ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصليهما بعد الوتر وهو جالس يقرأفيهما (إِذَا زُلْزِلَتِ) و (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ)"

(مسند احمد 5/260'269 بیہقی 3/33 کتاب الوتر لمحمد بن النصر المروزی ص 311 طحاوی 1/236 المعجم الکبیر للطبرانی)

"بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے ان دونوں میں إِذَا زُلْزِلَتِ اور قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ کی قراءت کرتے تھے۔"

علامہ ھیثمی فرماتے ہیں: اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (مرعاۃ المفاتیح 4/299)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (تحقیق المشکاۃ 1/401)

(5) ۔۔ اس معنی کی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (بیہقی 3/33 دارقطنی)

(6) ۔۔ " عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كنا مع رسول الله فى سفر فقال "إن السفر جهد وثقل فإذا أوتر أحدكم فليركع ركعتين فإن استيقظ وإلا كانتا له""

(دارقطنی، کتاب الوتر، باب فی الرکعتین بعد الوتر 1665 سنن الدارمی، باب فی الرکعتین بعد الوتر 1602 بیہقی 3/33 مجمع الزوائد 2/249 طحاوی 1/236)

"ثوبان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں ان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے آپ نے فرمایا: بلاشبہ سفر مشقت پر مبنی اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے۔ جب تم میں سے کوئی وتر ادا کرے۔"

(یعنی ابتدائی رات میں سونے سے پہلے آخری رات میں بیداری پر وثوق نہ ہونے کی وجہ سے) وہ دو رکعت ادا کر لے اگر وہ بیدار ہو گیا۔ (اور نماز پڑھ لی تو نور علی نور) اور اگر بیدار نہ ہوا نیند کے غلبے کی وجہ سے) تو یہ دو رکعتیں اس کے لیے (رات کے قیام سے) کافی) ہوں گی۔

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:

" رواه الطبرانى فى الكبير والاوسط وفيه عبدالله بن صالح كاتب الليث وفيه كلام " (مجمع الزوائد 2/249)

اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن صالح کاتب اللیث ہے اور اس میں کلام ہے۔ عبداللہ بن صالح ابو صالح کاتب اللیث بن سعد کے بارے ملاحظہ ہو:

(المغنی فی الضعفاء 1/544 تھذیب التھذیب 3/167'170 الکاشف 1/562 الجرح والتعدیل 5/398 تقریب ص: 1770)

اس کے بارے راجح بات یہ ہے کہ یہ حسن درجے کا راوی ہے بشرطیکہ اس کی روایت ثقات کے خلاف نہ ہو مذکورہ حدیث میں اس کی متابعت عبداللہ بن وھب نے دارمی کے ہاں کر رکھی ہے علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے دارمی کی سند کو جید قرار دیا ہے۔

" امام ترمذى ابواب الصلاة باب ما جاء لا وتران فى ليلة "

"میں طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" لا وتران فى ليلة "

ایک رات میں دو وتر نہیں کے تحت رقمطراز ہیں کہ اہل علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ جو شخص پہلی رات وتر ادا کرے پھر آخری رات میں اٹھ کھڑا ہو آپ کے صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ ان کے بعد والے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ وتر توڑ دے ان کا کہنا ہے وہ اس کے ساتھ ایک رکعت ملا دے اور پھر جو ظاہر ہو نماز پڑھے پھر آخر میں وتر ادا کرے اس لئے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں اور اسی بات کی طرف امام اسحاق بن راھویہ گئے ہیں اور بعض اہل علم صحابہ وغیرھم نے کہا ہے کہ جب اول رات وتر ادا کرے پھر سو جائے پھر رات کے آخر میں قیام کرے تو جو حصہ اس کے لئے ظاہر ہو پڑھ لے اور اپنے وتر کو نہ توڑے اور وتر کو اسی حال میں چھوڑ دے۔

یہ قول امام سفیان ثوری، امام مالک بن انس، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، اہل کوفہ اور امام احمد رحمھم اللہ اجمعین کا ہے اور یہی صحیح ترین قول ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی طرق سے مروی ہے کہ آپ نے وتر کے بعد نماز ادا کی ہے۔

(جامع الترمذی 2/324 تحقیق احمد شاکر رحمہ اللہ)

اس کے بعد امام ترمذی نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی ہے۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز کے ساتھ جس نے وتر ادا کر لئے تو وہ اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو جائز و درست ہے اور (اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وِتراً) تم اپنی آخری نماز وتر بناؤ میں امر وجوب کے لئے نہیں بلکہ ندب و استحباب کے لئے ہے اور جس شخص نے اول رات وتر ادا کر لئے ہوں اور اسے پچھلی رات بیداری نصیب ہو جائے تو وہ قیام کر لے اور رات میں ادا کئے ہوئے وتروں کو نہ توڑے۔ واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ120

محدث فتویٰ

تبصرے