سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) مقتدیوں کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا

  • 21364
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1375

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا باجماعت نماز ادا کرتے وقت رکوع سے اٹھتے وقت امام کے علاوہ دوسرے نمازیوں کو بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے؟ (عبداللہ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رکوع سے اٹھتے وقت مقتدی کو بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے حدیث میں ہے کہ "کان رسول اللہ ۔۔ (متفق علیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو جس وقت قیام کرتے تکبیر کہتے پھر جس وقت رکوع کرتے تکبیر کہتے پھر جس وقت رکوع سے اپنی پشت اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے آپ کی حالت امامت کو بھی شامل ہے اور حالت اقتداء کو بھی اگرچہ آپ امام ہوتے تھے لیکن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں بھی آپ نے نماز ادا کی ہے جیسا کہ

(ابوداؤد، باب المسح علی الخفین (149) مسلم، کتاب الصلوۃ 105/321)

میں موجود اس حدیث کے عموم سے معلوم ہوا کہ امام اور مقتدی دونوں سمع اللہ لمن حمدہ کہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

" إذا قال الإمام سمع الله لمن حمده، فقولوا ربنا ولك الحمد "

"جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو لہذا امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد کہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔"

" ولا حجة لهم فيه لأنه امر بأن يقول اللهم ربنا لك الحمد ونحن نقوله فأما إذا قال معه غيره فليس بمذكور فى هذا الخبر "

(مختصر خلافیات للبیہقی 1/393)

ان لوگوں کے لئے اس حدیث میں دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ آپ نے ربنا لک الحمد کہنے کا حکم دیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں لیکن جب امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کوئی اور کہے یہ اس حدیث میں ذکر نہیں ہوا ۔۔ اور یہ بات اصول میں طے ہے کہ عدم ذکر نفی کی دلیل نہیں ہوتا۔ اور دوسری حدیث کے عموم سے مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس حدیث کو یوں ہی سمجھا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے ربنا لک الحمد نہ کہے حالانکہ بہت ساری صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کو جیسے سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے ربنا لک الحمد ہی اسی طرح کہنا چاہیے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں۔ (مختصر خلافیات للبیہقی 1/391-393)

احناف کے ہاں امام محمد، قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کا یہ موقف ہے کہ امام تسمیع و تحمید دونوں کو جمع کرے۔ (عقود الجواھر المنیفہ فی ادلۃ مذھب الامام ابی حنیفہ ص 63)

جب ان کے ہاں امام تسمیع و تحمید دونوں کہے تو اس حدیث کی مخالفت نہیں تو مقتدی بھی تسمیع و تحمید دونوں کو جمع کرے تو حدیث کے بالکل مطابق اور صحیح ہے لہذا مقتدی کو بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ117

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ