سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) اکیلے آدمی کے ساتھ جماعت

  • 21363
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1978

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکیلا آدمی نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرا آدمی اس کے ساتھ آ کر کھڑا ہو جائے تو کیا جماعت ہو سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (ابو ساریہ جاوید اقبال فرید کوٹ۔ ابو عبدالرحمٰن بصیر پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص اکیلا نماز ادا کر رہا ہو اور دوسرا شخص آ کر اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے تو جماعت کی صورت بن جاتی ہے اور احادیث صحیحہ سے اس کا ثبوت موجود ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(بت عند خالتى فقام النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل فقمت أصلي معه فقمت عن يساره فأخذ برأسي وأقامني عن يمينه)

(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اذا لم ینو الامام ان یؤم ثم جاء قوم فامھم (699) صحیح مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا (763) سنن النسائی، کتاب الامامۃ، باب موقف الامام والماموم صبی (805)

"میں نے اپنی خالہ (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں رات بسر کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کر دیا۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو اور دوسراشخص آ جائے تو نماز باجماعت ادا ہو سکتی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر جو باب منعقد کیا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یعنی جب امام نے امامت کی نیت نہ کی ہو پھر کچھ لوگ آ جائیں تو وہ ان کی امامت کرا دے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" وفيه مشروعية الجماعة فى النافلة ، والانتمام بمن لم ينو الإمامة ، وبيان موقف الإمام والماموم " (فتح الباری 2/485)

"اس حدیث سے نفل نماز کی جماعت، جس آدمی نے امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتداء اور امام و مقتدی کے کھڑے ہونے کے طریقے کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔"

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ امام کے لئے امامت کی نیت کرنا اقتداء کی صحت کی شرط نہیں ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے:

" أن رسول الله يَة صلى في شهر رمضان فجئت فقمت إلى جنبه، وجاء آخر فقام إلى جنبي حتى كنا رهطا، فلما أحسن النبي يَةِ بنا تجوز في صلاته " الحدیث
" وهو ظاهر في أنه لم ينو الإمامة ابتداء وائتموا هم به ابتداء وأقرهم ، وهو حديث صحيح أخرجه مسلم وعلقه البخاري " (فتح الباری 2/192)

بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ میں نماز ادا کی میں آیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا اور دوسرا آیا وہ میرے پہلو میں کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ ہم ایک گروہ ہو گئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا تو آپ نے اپنی نماز میں اختصار کر دیا۔ یہ حدیث اس مسئلہ پر ظاہر ہے کہ آپ نے ابتداء میں امامت کی نیت نہیں کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ کی اقتداء کی اور آپ نے انہیں برقرار رکھا یہ حدیث صحیح ہے اسے مسلم نے نکالا ہے اور بخاری نے معلق ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھیں:

(الاقناع لابن المنذر 1/116 والاوسط لہ کتاب الامامۃ باب ذکر الائتمام بالمصلی الذی لا ینوی الامامۃ 4/210'211)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ نفلی اور فرضی نماز کے مابین فرق ہے فرضی نماز میں امامت کی نیت شرط ہے نفل نماز میں نہیں۔

لیکن امام احمد کا یہ قول محل نظر ہے اس لئے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ "ان النبی ۔۔" بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ کون آدمی اس پر صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ہمراہ نماز ادا کرے۔ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے نکالا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن اور امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (فتح الباری 2/192)

یہ حدیث فرضی نماز کے بارے میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص فرض نماز اکیلا پڑھ رہا ہو تو دوسرا آدمی اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے تو ان کی جماعت بن جائے گی۔ اس لئے نماز خواہ فرض ہو یا نفل دونوں صورتوں کا جواز حدیث سے واضح ہے کہ اکیلے آدمی کی نماز میں دوسرا ساتھ مل جائے تو جماعت کی صورت بن سکتی ہے امام بخاری وغیرہ کا بھی رجحان ادھر ہی معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ سے اس موقف کی تقویت واضح ہو جاتی ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ115

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ