سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) نمازوں کے اوقات معلوم کرنے کا طریقہ

  • 21362
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 8148

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اوقات نماز کے بارے میں قرآن و احادیث میں کیا احکامات ہیں اول اوقات کب اور کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ظہر کی نماز کے لئے کچھ لوگ سایہ زوال شامل کرتے ہیں کچھ مغرب کی سمت میں پیدا ہونے والے سایہ کو معیار سمجھتے ہیں اس صورت میں نماز کا وقت بہت پہلے ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید اور صحیح احادیث سے وضاحت فرمائیں؟ (ڈاکٹر عبدالتواب۔ ملتان H-061-589089)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالٰی نے نماز اپنے اپنے وقت میں فرض کی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے۔

﴿ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

"بلاشبہ نماز مومنین پر وقت مقررہ میں فرض کی گئی ہے۔" (النساء: 103)

اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کو اس کے مقرر کردہ وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے اور اجمالی طور پر اوقات نماز کو اس آیت میں ذکر کر دیا گیا ہے اور قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر اول و آخر وقت کی تعین کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اوقات نماز کو بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا:

﴿وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ طَرَفَىِ النَّهارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيلِ...﴿١١٤﴾... سورةهود

"دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی گھڑیوں میں بھی۔"

اس آیت کریمہ میں "طَرَفَيِ النَّهَارِ" سے مراد صبح اور ظہر و عصر کی نماز اور "زُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ" سے مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے۔ (مرعاہ المفاتیح: 2/271)

ایک مقام پر فرمایا:

﴿أَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلىٰ غَسَقِ الَّيلِ وَقُرءانَ الفَجرِ إِنَّ قُرءانَ الفَجرِ كانَ مَشهودًا ﴿٧٨﴾... سورةالإسراء

"نماز قائم کریں سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔"

اس آیت میں "لِدُلُوكِ" کے معنی زوال آفتاب اور "غَسَقِ" کے معنی تاریکی کے ہیں زوال آفتاب کے بعد ظہر و عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور "قُرْآنَ الْفَجْرِ" سے مراد فجر کی نماز ہے۔ یہاں قرآن نماز کے معنی میں ہے اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ ایک مقام پر ارشاد باری تعالٰی ہے:

﴿فَسُبحـٰنَ اللَّهِ حينَ تُمسونَ وَحينَ تُصبِحونَ ﴿١٧ وَلَهُ الحَمدُ فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَعَشِيًّا وَحينَ تُظهِرونَ ﴿١٨﴾... سورةالروم

"پس تم صبح و شام اللہ کی تسبیح کیا کرو آسمانوں اور زمینوں میں تعریف اس کی ہے تیسرے پہر اور ظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔"

اس آیت کریمہ میں بھی بعض مفسرین نے تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور " تُمْسُونَ " میں مغرب و عشاء " تُصْبِحُونَ " میں نماز فجر " عَشِيًّا " میں سہہ پیر یعنی عصر اور " تُظْهِرُونَ " میں نماز ظہر مراد ہے۔ (فتح القدیر) ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ قَبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ غُروبِها وَمِن ءانائِ الَّيلِ فَسَبِّح وَأَطرافَ النَّهارِ لَعَلَّكَ تَرضىٰ ﴿١٣٠﴾... سورة طه

"سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو اور رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتے رہیں بہت ممکن ہے کہ آپ راضی ہو جائیں۔"

اس آیت میں بعض مفسرین نے تسبیح سے مراد نماز لی ہے طُلُوعِ الشَّمْسِ سے قبل فجر، غروب سے قبل عصر، رات کی گھڑیوں سے مراد مغرب و عشاء اور " أَطْرَافَ النَّهَارِ " سے مراد ظہر کی نماز لی ہے کیونکہ ظہر کا وقت نہار اول کا آخری طرف اور نہار آخر کا اول طرف ہے مزید دیکھیں (مرعاۃ المفاتیح 2/284)

ان آیات بینات میں اجمالی طور پر اوقات صلوۃ کو بیان کر دیا گیا ہے جب کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ میں پانچوں نمازوں کے اوقات کی ابتداء و انتہاء کو متعین کر دیا گیا ہے۔

فجر کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔ ظہر کا وقت زوال شمس سے لے کر ہر چیز کا سایہ اس کی ایک مثل ہونے تک ہے اور عصر کا وقت مثلا اول سے لے کر دو مثل تک اور مغرب غروب شمس سے لے کر شفق کے غائب ہونے تک ہے اور عشاء شفق کے غائب ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ مَا لَمْ يَحْضُرْ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ فَأَمْسِكْ عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ) (رواه مسلم 173/612) بحواله مشکوة المصابیح 581)

"ظہر کا وقت جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کی مثل ہو جائے اور عصر کی نماز کا وقت نہ ہو اور عصر کا (آخری) وقت جب تک سورج زرد نہ ہو جائے اور مغرب کا جب تک سرخی غائب نہ ہو اور عشاء کا وقت درمیانی رات کے نصف تک اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے جب آفتاب نکلنا شروع ہو جائے تو نماز سے رک جا کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔"

(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ العَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ العَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ المَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ العِشَاءِ الآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ)

(صحیح الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ)

"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک ہر نماز کے لئے ایک ابتدائی وقت ہے اور ایک انتہائی وقت ہے۔ نماز ظہر کا ابتدائی وقت جب سورج ڈھل جائے اور آخری وقت جب نماز عصر کا وقت شروع ہو۔ نماز عصر کا ابتدائی وقت وہی ہے جب یہ وقت شروع ہو جائے اور آخری وقت جب سورج (دھوپ) زرد ہو جائے۔ مغرب کا ابتدائی وقت جب سورج غروب ہو جائے اور آخری وقت جب شفق غائب ہو جائے۔ عشاء کا ابتدائی وقت جب شفق غائب ہو جائے اور آخری وقت جب آدھی رات گزر جائے۔"

فجر کا ابتدائی وقت جب فجر طلوع ہو جائے اور آخری وقت جب سورج طلوع ہو جائے اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فجر کا اول وقت فجر صادق کے طلوع ہونے سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ہے اور ظہر کا اول وقت سورج ڈھلنے سے لے کر جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جائے اور عصر کا اول وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے جب سورج زرد پڑ جاتا ہے اور مغرب کا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر شفق یعنی شام کی سرخی غائب ہونے تک ہے اور عشاء کا وقت سرخی کے غائب ہونے سے لے کر آدھی رات تک ہے۔اب رہا یہ مسئلہ ظہر کی نماز کے لئے مثل اول کی پہچان کا طریقہ کہ اس میں زوال کا سایہ شامل ہے یا اسے منہا کیا جائے گا تو اس کے بارے امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب آفتاب ڈھلنا شروع ہو جائے تو نماز ظہر کا اول وقت شروع ہو جاتا ہے قبل ازیں نماز ظہر کی ابتداء بالکل جائز نہیں نہ ہی وہ نماز کفایت کرتی ہے پھر نماز ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے تک باقی رہتا ہے اس میں وہ اصلی سایہ شمار نہ ہو گا جو زوال آفتاب کے وقت اس چیز کا تھا۔ البتہ اس سے جو زیادہ ہو گا وہ شمار ہو گا۔ (المحلی لابن حزم اردو 2/346)

مولانا اسماعیل سلفی فرماتے ہیں "سورج بعض علاقوں میں سیدھا سر کے اوپر سے گزرتا ہے اور بعض علاقوں میں خم کھا کر گزرتا ہے اور موسم کے لحاظ سے بھی اس کی رفتار میں یہ فرق ظاہر ہوتا ہے۔ گرمی میں وہ سر کے قریب سے گزرتا ہے اور سردیوں میں ایک طرف زیادہ خم کھا کر کر گزرتا ہے ان دونوں موسموں میں سایہ کا حساب الگ الگ ہوتا ہے۔ جن ممالک سے سورج خم کے بغیر گزرتا ہے وہاں دوپہر کے وقت جب سورج سر پر ہو تو ہر چیز کا سایہ اس کے قدموں میں ہوتا ہے ظاہر نہیں ہوتا۔

اسی طرح گرمی کے موسم میں چونکہ سورج سر کے قریب ہوتا ہے اس لئے سایہ کم ہوتا ہے کیونکہ سورج کی رفتار میں خم اور انحراف کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سایہ عین دوپہر کے وقت بھی ہوتا ہے سردیوں میں جیسے جیسے خم بڑھتا ہے سایہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے اسے سایہ اصلی کہا جاتا ہے زوال کے بعد اس میں اور اضافہ ہوتا ہے اس لئے مثل کا حساب کرنے کے وقت یہ سایہ منہا کر دیا جائے گا اسے علیحدہ کرنے کے بعد جو سایہ ہو گا مثل یا دو مثل اسی سے شمار ہو گا۔ (حاشیہ مشکوۃ المصابیح 1/414-415)

زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہو گا یہی بات امام ابن تیمیہ کے فتاوی 22/74 فقہ حنفی کی کتاب "الھدایۃ" ¼ فقہ شافعی کی المجموع 3/81 فقہ حنبلی کی الروض المربع 1/42 وغیرہ میں موجود ہے الغرض یہ بات اتفاقی ہے کہ زوال کا سایہ نکال کر مثل کی پیمائش ہو گی۔

مثل معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ زوال کے وقت کم سے کم رہ جائے گا۔ اس سائے کو ماپ لیا جائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہو گا کہ زوال ہو گیا۔

پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے (زوال کے وقت لکڑی کا ماپا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہو جائے گا اور جب دوگنا ہو جائے تو دو مثل ہو جائے گا۔ (فقہ السنۃ للشیخ عاصم حداد 1/115)

ایک طریقہ یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ دوپہر کے وقت سے پہلے ایک یا دو بالشت زمیں کی سطح ہموار کر کے اس پر شمالا جنوبا ایک سیدھا خط کھینچ دیا جائے۔ قطب نما سے اس خط کی راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ پھر اس خط کے جنوبی نقطہ پر ایک سیدھی سی لکڑی گاڑ دیں چونکہ دوپہر سے پہلے کا وقت ہو گا اس لکڑی کا سایہ عین اس خط پر نہیں ہو گا بلکہ اس سے قدرے مغرب کی جانب مائل ہو گا پھر آہستہ آہستہ سایہ اس خط پر آنا شروع ہو جائے گا حتی کہ بالکل اسی خط پر منطبق ہو جائے گا اس وقت اس سایہ کے انتہاء پر نشان لگا دیں اور اس سایہ کو کسی اور لکڑی سے ماپ لیں اور یہ پیمانہ محفوظ کر لیں یہ وقت عین دوپہر کا ہو گا اس کے بعد وہ سایہ مشرق کی طرف متصل ہونے لگے گا یہ ظہر کا اول وقت ہو گا پھر اس کے بعد جب سایہ بڑھتا جائے گا تو جس لکڑی کے ساتھ اصل سائے کی پیمائش کی تھی اس کے ساتھ اس کے اصل سائے کے نشان سے آگے ایک مثل جب سایہ ہو جائے گا تو وہ ظہر کا آخری وقت ہو گا اور عصر کا اول وقت۔

یہ طریقہ مثل معلوم کرنے کا ہے اس کے لئے کچھ وقت نکال کر آپ تجربہ کریں اور شمسی مہینہ کے حساب سے ہر ماہ اگر آپ تجربہ کرتے رہیں گے تو آپ کے پاس ایک سالانہ جنتری مرتب ہو جائے گی۔ عصر حاضر میں محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی کافی سہولت ہے اور مرتب شدہ جنتریاں بھی مل سکتی ہیں جن میں ٹائم کی صحیح نشاندہی کی ہوتی ہے۔ اگر اطمینان نہ ہو تو آدمی خود تجربہ کر کے مثل اول و مثل ثانی معلوم کر سکتا ہے۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ108

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ