صف بندی میں پاؤں کس طرح ملانے چاہئیں؟ ہمارے ہاں عموما صرف رکوع میں ملائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ صرف پاؤں کی ایک انگلی ملا لیتے ہیں۔ معترض کہتے ہیں پورا پاؤں ملانے سے ٹیڑھے ہو جاتے ہیں۔ پاؤں ملانے کے مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کیجیے۔ (انجنئیر حسن۔ لاہور)
نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت بہت زیادہ ہے صف درست کرنا اقامت صلوۃ میں سے ہے انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صفیں درست کرو بےشک صفوں کی درستی اقامت صلوۃ میں سے ہے۔"
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصف من تمام الصلوۃ (723)
اس حدیث کے دوسرے طریق میں الفاظ یوں ہیں۔
"صفیں درست کرو بےشک صف کی درستگی نماز کے پورا کرے سے ہے۔"
صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف و اقامتھا 124/433 ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف (668) ابن ماجہ، کتاب اقامہ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب اقامۃ الصفوف (993) مسند ابی عوانہ 2/38 سنن الدارمی باب فی اقامۃ الصفوف (1266) مسند احمد 3/177'253'273'279'291)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفوں کو درست کرنا اقامہ الصلوۃ اور تمام صلوۃ سے ہے اور ان کا ٹیڑھا ہونا نماز کے نقصان کا موجب ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز میں صف قائم کرو بےشک صف کا قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔"
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصف من تمام الصلوۃ (722) عبدالرزاق (2424)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز میں صفوں کی درستگی اچھے طریقے سے کرو۔" (مسند احمد 2/485)
اس حدیث کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(صحیح الترغیب والترھیب 1/271 (496) صحیح ابن حبان (موارد 384) مجمع الزوائد 2/92)
ان صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ صف کا صحیح و درست رکھنا نماز کے حسن و خوبصورتی میں سے ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اگر صف کی درستگی صحیح نہ ہو گی تو نماز کے اندر نقصان لازم آئے گا صفوں کی درستگی اور ان کا سیدھا ہونا رکوع ہی میں نہیں بلکہ قیام سے ہی ضروری و لازمی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے صفیں درست کرتے تھے، پھر نماز شروع کرتے تھے۔ اگر صف میں نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف درست کرتے تھے یہاں تک کہ اسے نیزے یا تیر کی طرح کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک آدمی کا سینہ آگے بڑھا ہوا دیکھا تو فرمایا: اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ بعض روایات میں چہروں کی بجائے دلوں کا ذکر ہے۔
(ابن ماجہ، کتاب اقامہ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب اقامہ الصفوف (994) واللفظ لہ ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف (663) صحیح مسلم 128/436 صحیح البخاری (717 مختصرا)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک صفوں میں گھس جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے اور کہتے، اختلاف نہ کرو تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے اور کہا کرتے تھے، بےشک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف (664) نسائی، کتاب الامامۃ باب کیف یقوم الامام الصفوف (810) ابن ماجہ (997)
زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ براء بن عازب کی حدیث کی سند صحیح اور اس کے تمام روات ثقہ ہیں۔
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ صف کی درستگی نماز شروع کرنے سے پہلے ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا کام صفیں درست کرنا بھی ہے۔ اگر کہیں صف میں خلل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح کرائے پھر نماز شروع کرے۔ لیکن افسوس کہ ائمہ مساجد آج اس بات کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اقامت کہنے کے ساتھ نماز شروع کر دی جاتی ہے۔ صفوں کی درستگی نہیں کرائی جاتی۔ نماز میں ہر شخص کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اپنے ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ کنڈھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں پورا ملا ہوا ہو، درمیان میں کوئی خلا نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا پر کرنے کا حکم دیا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو قائم کرو اور کندھوں اور بازوؤں کو برابر کرو اور شگاف بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو اور جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) کاٹے گا۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف (666) نسائی، کتاب الامامۃ، باب من وصل صفا (818) المستدرک للحاکم 1/213 امام حاکم و امام ذہبی نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا علامہ البانی نے اسے صحیح کہا صحیح الترغیب والترھیب (492) مسند احمد 2/98)
امام منذری اس حدیث میں لفظ "فرجات" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
" الفرجات جمع فرجة وهى المكان الخالى بين الاثنين ""یہ فرجۃ کی جمع ہے اور اس کا مطلب دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ ہے۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں شگاف بند کرنے چاہئیں اور دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے لہذا جو لوگ دو نمازیوں کے درمیان چار انگلیوں یا اس سے زیادہ فاصلے کرتے ہیں، ان کا عمل درست نہیں۔ انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"البتہ ہم نے دیکھا، ہم میں سے ہر کوئی اپنے کندھے اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں کے ساتھ چپکا دیتا تھا اور اگر تو آج کسی کے ساتھ ایسا کرے تو ان میں سے ہر کسی کو دیکھے گا کہ (وہ ایسے بدکتا ہے) گویا وہ شریر خچر ہے۔"
(ابن ابی شیبہ (3524) مطبوعہ دار التاج بیروت فتح الباری 2/211 عمدۃ القاری 5/260)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو قائم کرو۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی۔ اللہ کی قسم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ صحابی فرماتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے، اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف (662) صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم تعلیقا، مسند احمد، 4/276، ابن حبان (396) دارقطنی 1/282'283 بیہقی 3/100'101)
ابو عثمان النھدی فرماتے ہیں:
" كنت فيمن ضرب عمر بن الخطاب قدمه لاقامة الصف في الصلاة ""میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پاؤں پر نماز میں صف قائم کرنے کے لئے مارا تھا۔"
(المحلی لابن حزم 4/58 موسوعۃ فقہ عمر بن خطاب ص 445، ابن ابی شیبہ (3530) 1/309، فتح الباری 2/210)
صالح بن کیسان سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر فرماتے تھے:
"مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جائیں اس بات سے کہ اگر میں صف میں شگاف دیکھوں اور اسے بند نہ کروں۔"
(عبدالرزاق (2473) 2/57، ابن ابی شیبہ 1/333، المحلی لابن حزم 4/59)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ و حسنہ سے معلوم ہوا کہ نماز شروع کرتے وقت پہلے صفیں سیدھی کی جائیں۔
اگر صف میں کوئی خلا ہو تو اس کو بند کیا جائے اور امام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صفیں درست کرائے ہر نمازی اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملائے اور اپنے بھائی کے ہاتھ میں نرم ہو جائے۔ جب صف درست ہو جائے تو امام نماز شروع کرے اور یہ عمل قیام سے ہی شروع ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ قیام میں تو کندھوں میں اور پاؤں میں وقفہ ہو اور رکوع میں ملانا شروع کر دیں۔ اس طرح پاؤں کی صرف ایک انگلی نہیں بلکہ پورا قدم ملایا جائے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ملاتے تھے۔ اور قدم ملانے سے شریر خچر کی بدکنا نہیں چاہیے۔ پاؤں ملانے اور شگاف بند کرنے سے نمازی اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر قسم کے افراط و تفریط سے محفوظ فرمائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب