سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) فجر اور عشاء کی اذان میں دوسری تشہد

  • 21355
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 939

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ فجر اور عشاء کی اذان میں تشہد بار بار پڑھتے ہیں اور باقی لوگ صرف دو بار تشہد کے کلمات پڑھتے ہیں، وضاحت فرمائیں کہ آپ اذان میں اضافہ کرتے ہیں یا دیگر لوگ کمی کرتے ہیں اگر ان دونوں اذانوں میں تشہد چار مرتبہ پڑھنا ضروری یا افضل ہے تو حرمین شریفین میں یہ چار مرتبہ کیوں نہیں پڑھی جاتی جب کہ آپ حضرت کا کہنا ہے کہ آپ فقہی اعتبار سے سعودی علماء کے پیروکار ہیں یا وہ آپ حضرات کی فقہ کے پیروکار ہیں ویسے حرمین شریفین کے علماء مالکی اور شافعی مسالک کے مقلد ہیں۔ (ایک بریلوی۔ سبز زاری بلاک لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل سوال کے جواب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ ہماری فقہ کتاب و سنت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ہمارے لئے حجت شرعیہ ہیں۔ کتاب و سنت کی صحیح تفہیم ہی اصل فقہ ہے حرمین شریفین کے علماء کا بھی یہی مؤقف ہے۔

مجلہ البحوث الاسلامیہ عدد نمبر 52۔1418ھ میں سعودی علماء کے فتاوی جات تقلید کے مسئلہ پر موجود ہیں۔ وہ کتاب و سنت کی طرف ہی توجہ دلاتے ہیں۔ ص 142 میں لکھا ہے:

والله جل و علا لا يسال الناس يوم القيامة عن المذاهب الاربعة ولا عما تبعوا من المذاهب الاربعة وانما السوال يقع عن اتباع شرع الله وإجابة رسله قال تعالى
﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسـَٔلَنَّهُم أَجمَعينَ ﴿٩٢ عَمّا كانوا يَعمَلونَ ﴿٩٣﴾... سورةالحجر
(وقال تعالى ﴿وَيَومَ يُناديهِم فَيَقولُ ماذا أَجَبتُمُ المُرسَلينَ ﴿٦٥﴾... سورة القصص

"اللہ جل و علا قیامت والے دن لوگوں سے مذاہب اربعہ اور ان کی پیروی کے بارے میں سوال نہیں کرے گا۔ سوال صرف اللہ کی شریعت اور رسولوں کی اجابت کے بارے میں ہو گا۔"

"اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تیرے رب کی قسم ہے ان سب سے ان کے اعمال کے بارے سوال کریں گے۔"

ایک اور مقام پر فرمایا: وہ ندا دے گا ان کو اور کہے گا تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا۔ (ص 143) پر لکھتے ہیں کہ ان چاروں مذاہب میں سے کسی ایک کو لازم پکڑنا درست نہیں بلکہ آدمی اگر اہل علم میں سے ہو تو وہ دلیل کو لازم پکڑے وگرنہ مشکل مسئلہ اہل علم سے پوچھ لے۔ بہرکیف ہمارے لئے اتباع شریعت لازم ہے۔ کسی کی تقلید نہیں اور اتباع شریعت قرآن و حدیث کی پیروی کا نام ہے۔

شریعت میں دوہری اذان ثابت ہے جس میں شہادتیں پہلی بار دوسری بار کی نسبت پست آواز میں ہو اور دوسری بار پہلے کی نسبت بلند آواز سے شہادت کے کلمات کہے جائیں۔ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ کے مؤذن تا حیات رہے ہیں جیسا کہ اسد الغابہ 6/273 رقم الترجمہ 6229 میں موجود ہے اور وہ یہ اذان ہی کہتے تھے۔

اس میں نمازوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ نماز کوئی بھی ہو اس کے لئے یہ اذان کہی جا سکتی ہے۔ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اذان کے کلمات سکھائیں۔ فرماتے ہیں: آپ نے میرے سر کا اگلا حصہ پکڑا اور فرمایا تم کہو:

الله اكبر،الله اكبر،الله اكبر،الله اكبر،

ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز بلند کرو۔ پھر کہو:

" اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمد رسول الله اشهد ان محمد رسول الله ۔۔۔ الحديث "

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب کیف الاذان (500) ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الترجیع فی الاذان (191) مختصر ابن ماجہ، کتاب الاذان والسنۃ فیھا باب الترجیع فی الاذان (709'708) طبرانی 7/174 بیہقی 1/394 شرح السنۃ (408) مسند احمد 3/409' 16/401 دارمی (1199) ابن خزیمہ 377'1379

ابن حبان (1680'1681) صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الاذان 6/379)

امام نووی فرماتے ہیں:

" وفي هذا الحديث حجة بينه ودلالة واضحة لمذهب مالك والشافعي وأحمد وجمهور العلماء أن الترجيع في الأذان ثابت مشروع ، وهو العود إلى الشهادتين مرتين برفع الصوت ، بعد قولهما مرتين بخفض الصوت " (شرح النووی صحیح مسلم 4/70)

"اس حدیث میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کے مذہب کے لئے کھلی دلیل اور واضح دلالت ہے کہ اذان میں ترجیع ثابت اور مشروع ہے اور ترجیع یہ ہے کہ دو مرتبہ شہادتین کا قول پست آواز کرنے کے بعد بلند آواز سے دوبارہ کہا جائے۔"

امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ کے نزدیک ترجیع مشروع نہیں اس لئے کہ عبداللہ بن زید کی حدیث میں ترجیع کا ذکر نہیں۔ جب کہ جمہور کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے اور اس میں ترجیع کا ذکر ہے اور یہ ذکر و زیادت مقدم ہے اس لئے بھی کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث عبداللہ بن زید کی حدیث کے بعد کی ہے۔

ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث 8ھ میں حنین کے بعد کی ہے اور عبداللہ بن زید والی حدیث اس سے پہلے اذان کی ابتدا کے وقت کی ہے اہل مکہ و مدینہ اور تمام شہروں کا عمل اس میں ضم ہو گیا ہے لہذا یہ کلمات اذان میں اضافہ نہیں بلکہ سنت سے ثابت ہے اور ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اپنی ساری زندگی میں مکہ میں یہی اذان کہتے رہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس اذان کے ساتھ دوہری اقامت ہے۔

بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے ساتھ اقامت کے کلمات اکہرے ہیں۔ ہمارے حنفی بھائیوں نے اذان بلال رضی اللہ عنہ کی لے لی اور اقامت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ والی۔ کسی بھی حدیث پر پورا عمل نہیں کیا۔ اگر بلال رضی اللہ عنہ والی اذان لینی ہے تو اقامت بھی انہی کی ہونی چاہیے اور اگر اقامت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ والی کہی جاتی ہے تو ان کی اذان جو ترجیع والی ہے، اس سے انکار کیوں۔ اللہ تعالیٰ صحیح صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاذان-صفحہ81

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ