کیا کسی مزار یا قبر پر جا کر جانور ذبح کرنا اور نذرونیاز چڑھانا جائز ہے؟ قرآن و سنت کی رو سے واضح کریں؟
نذرونیاز اور تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا عبادت ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
"کہہ دیجیے! بلاشبہ میری نماز میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے بات ماننے والا ہوں۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
"اپنے رب کی خاطر نماز پڑھ اور قربانی کر۔"
ایک جگہ پر فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا لیکن اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔"
ان آیات بینات سے واضح ہو گیا کہ ہر قسم کی عبادت، قربانی، جانور کے ذبیحے، تقویٰ اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ اس میں کسی کو شریک اور حصہ دار نہیں بنانا چاہیے۔ جو شخص کسی اور ہستی کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اس پر نبی آخر الزمان صادق و مصدوق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیفے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے:
"اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیراللہ کے لیے ذبح کیا اور اس پر بھی لعنت ہو جس نے زمین کی حدود و علامات کو چرایا اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے اپنے والدین پر لعنت کی اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو جگہ دی۔"
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس طرح کی حدیث (مسند احمد 2913) وغیرہ میں موجود ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسند احمد 3/197، بیہقی 3/57، ابوداود 3222، عبدالرزاق 269، باب کراھیۃ الذبح ۔۔ موارد 738 شرح السنۃ 5/461'11/227 جمع الجوامع 8/272)
"اسلام میں قبروں کے نزدیک ذبیحہ نہیں ہے۔"
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عقر کی تشریح میں فرمایا ہے کہ:
(كانوا يعقرون عند القبر بقرة أو شاة)"مشرکین قبروں کے پاس گائے یا بکری ذبح کیا کرتے تھے۔"
امام خطابی نے ابوداؤد کی شرح "معالم السنن" 1/734 میں فرمایا ہے۔
"اہل جاہلیت سخی آدمی کی قبر پر اونٹ ذبح کرتے تھے اور کہتے تھے ہم اس کی سخاوت کا بدلہ دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھلاتا تھا ہم اس کی قبر کے پاس ذبح کر رہے ہیں تاکہ درندے اور پرندے کھائیں اور جس طرح اس کی زندگی میں لنگر جاری رہتا تھا مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔"
مذکورہ بالا حدیث اور اس کی شرح سے معلوم ہوا کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا زمانہ جاہلیت میں مشرکوں کا کام تھا جو قبروں پر لنگر جاری رکھتے تھے اسلام نے آ کر اس کو ختم کیا ہے اور یہ درس دیا ہے کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے جو لوگ قبروں پر جا کر نذر و نیاز چڑھاتے اور ذبیحے کرتے ہیں وہ اہل قبور کو مشکل کشا اور حاجت روا جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں نذرانہ دیا گیا تو ہماری حاجات پوری ہوں گی اور صاحب قبر راضی ہو گا۔
حالانکہ اصحاب القبور نہ ہماری پکاریں سنتے ہیں اور نہ ہی مشکلات حل کرنے پر قادر ہیں۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
"اور وہ ہستیاں جنہیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت والے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے اور خبر دینے والے کی طرح تمہیں نہیں خبر دیں گے۔"
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ جن ہستیوں کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی بھی چیز کے مالک نہیں مالک و خود مختار تو حق تعالٰی کی ذات ہے اس لیے اسے ہی پکارنا چاہیے اور نذریں و نیازیں جو اکثر عوام قبروں اور آستانوں پر مانتے ہیں حرام قرار دی گئی ہیں۔
علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:
"اکثر قوم جو نذر مانتی ہے اور مشاہدے میں ہے وہ کسی غائب انسان کے لیے ہوتی ہے یا مریض کے لیے یا کسی دوسری ضروری حاجت کے لیے۔ بعض نیک لوگوں کی قبروں پر آ کر اس کا غلاف سر پر رکھ کر کہتا ہے اے میرے فلاں آقا اگر میرا غائب ہونے والا ساتھی واپس کر دیا گیا یا میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میری حاجت پوری کر دی گئی تو تیرے لیے اتنا سونا یا اتنی چاندی یا اتنا غلہ یا اس طرح کی پانی کی سبیل یا شمع جلاؤں گا یا اتنا تیل ڈالوں گا یہ نذر بالاجماع باطل و حرام ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔"
1۔ یہ نذر مخلوق کی ہے اور مخلوق کے لیے نذر ماننا جائز نہیں۔ اس لیے یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوتی۔
2۔ جس کے لیے نذر مانی جا رہی ہے وہ مردہ ہے اور مردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔
3۔ اگر نذر ماننے والے نے یہ یقین کیا کہ میت اللہ کے سوا متصرف الامور ہے تو اس کا یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ (البحر الرائق 2/297 مطبوعہ کوئٹہ)
یہی بات فتاویٰ شامی 2/28 اور فتاویٰ عالمگیری 1/216 میں بھی موجود ہے ۔۔ شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی فرماتے ہیں'
تفسیر نیشا پوری میں لکھا ہے کہ:
" اجمع العلماء لو ان مسلما ذبح ذبيحة و قصد بذبحها التقرب الى غيرالله صار مرتدا و ذبيحته ذبيحة مرتد "(فتاویٰ عزیزی اردو ص؛ 537)
"علماء کرام کا اسی بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی ذبیحہ غیراللہ کے تقرب کے لیے کیا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہو گا۔"
فقہ حنفی کے حوالہ جات سے بھی معلوم ہوا کہ اھل قبور کے لیے نذر و نیاز ماننا بالاجماع حرام و باطل ہے اور ان کے متعلق تصرف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے کئی لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو بزرگوں کے نام کی نذر نہیں دیتے ان کے مزارات اور آستانوں پر حاضر ہو کر اللہ کے نام کا جانور ذبح کرتے ہیں تو یاد رہے کہ ایسے مقامات جہاں پر غیراللہ کی عبادت ہوتی ہے جیسے قبروں پر سجدے کرنا، اہل قبور کو مشکلات میں ندا دینا اور پکارنا وغیرہ وہاں اللہ کے نام کا ذبیحہ اور نذر و نیاز ماننا بھی جائز نہیں۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ثابت بن الضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ:
(ابوداؤد، کتاب الایمان والنذور (3312) بیہقی 10/82)
"ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں جس کی عبادت کی جاتی ہو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں۔"
آپ نے فرمایا کہ اس جگہ میں ان کے میلوں میں سے کوئی میلہ تو نہیں لگتا۔ صحابہ کرام نے کہا نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لے اور یاد رکھو اللہ کی نافرمانی میں نذر کو پورا نہیں کرنا اور نہ اس کو پورا کرنا ہے جس کا ابن آدم مالک نہیں۔
اس حدیث کی شرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث اس بات کی بین دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلہ لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو اگرچہ اس مقام پر اب نہ میلے کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ ہی بت نصب ہوتا ہو ہمیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ پر میلہ لگانا یا کسی مقام پر ان کا غیراللہ کی عبادت کرنا خالص اللہ کے لیے ذبح کرنے اور نذر پورا کرنے کے لیے مانع اور رکاوٹ ہے۔" (ھدایۃ المستفید: 1/455)
اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایسے مقامات جہاں پر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ہوتی ہو عرس، میلے لگتے ہوں وہاں پر اللہ کے نام کی نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھانا اور بکرے چھترے وغیرہ ذبح کرنا حرام ہیں۔ اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
جواب: یہ واقعہ اپنی تمام اسانید سمیت ضعیف اور ناقابل حجت ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسے:
حافظ ھبۃ اللہ الطبری اللالکائی نے شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ: 7/1330 رقم 2537 میں، امام بیہقی نے دلائل النبوۃ 6/370۔ مشکوۃ مع تنقیح الرواۃ باب الکرامات الفضل الثالث 4/193، البدایہ والنھایہ 7/117 ابو عبدالرحمن السلمی نے "الاربعین" میں ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" میں ضیاء مقدسی نے "المنتقی" میں جیسا کہ علامہ البانی نے سلسلۃ صحیحہ 3/101 رقم (1110) میں اور صاحب تنقیح الرواۃ نے ذکر کیا ہے۔ ابن الاعرابی نے "کرامات الاولیاء" میں اور زین عاقولی نے اپنے فوائد میں جیسا کہ ابن حجر نے الاصابہ 3/5 میں بیان کیا ہے۔ ابن وھب عن یحیی بن ایوب عن ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے روایت کیا ہے۔ یہ سند دو بڑی علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔
1۔ محمد بن عجلان صدوق ہونے کے باوجود مدلس ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے "طبقات المدلسین" ص 44 رقم 98 میں، حافظ علائی نے جامع التحصیل ص 109 وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔
اور اصول حدیث میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ مدلس راوی کا عن کے لفظ سے روایت کرنا صحت حدیث میں قادح ہے۔ جب تک کہ وہ سمعت، اخبرنا، حدثنا جیسے الفاظ سے سماع کی تصریح نہ کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع نہ ملے۔ امام نووی نے "المجموع شرح المہذب" 6/212 میں ذکر کیا ہے کہ مدلس راوی جب لفظ "عن" سے روایت کرے تو بالاتفاق حجت نہیں ہوتا۔ یہ بات بریلوی علماء کو بھی مسلم ہے۔ امام البریلویہ مولوی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں "عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مردود و نا مستند ہے" (فتاویٰ رضویہ 5/245 مبطوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
مولوی محمد عباس رضوی نے لکھا ہے کہ "مدلس کا عنعنہ بالاتفاق مردود ہے۔ تدلیس جرح ہے اور جس سے ثابت ہو جائے کہ وہ تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت کو مطلقا قبول نہیں کیا جائے گا" (واللہ آپ زندہ ہیں ص 351)
لہذ فریقین کے مسلمہ اصول کی بنا پر یہ روایت محمد بن عجلان کے تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دوسری بڑی علت اس میں یہ ہے کہ محمد بن عجلان نافع سے روایت بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔
امام عقیلی فرماتے ہیں "یضطرب فی حدیث نافع" نافع سے روایت بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔
(تھذیب التھذیب 5/1220 الضعفاء الکبیر 4/118) اور اس کی یہ روایت نافع سے ہی ہے لہذا یہ سند حجت نہیں۔
2۔ ابن عجلان حدثنی ایاس بن معاویہ بن قرۃ (دلائل النبوۃ 6/370 شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ 7/1330) یہ روایت مرسل ہے۔ حافظ عراقی فرماتے ہیں مرسل روایت کو جماہیر نقاد نے سند میں سے ساقط راوی کی جہالت کی وجہ سے رد کیا ہے۔ (الفیہ العراقی بشرح فتح الباقی ص: 143)
امام مسلم فرماتے ہیں:
" والمرسل من الروايات في أصل قولنا وقول أهل العلم بالأخبار ليس بحجة ""مرسل ہمارے اور روایات کو جاننے والوں کے اصل قول میں حجت نہیں۔"(مقدمہ صحیح مسلم 117'118 ط بیروت)
لہذا یہ روایات مرسل ہونے کی وجہ سے محدثین کرام رحمھم اللہ کے ہاں حجت نہیں ہے۔
علامہ ابن الاثیر جزری نے فرات بن السائب عن میمون بن مھران عن ابن عمر کے طریق سے اسد الغابۃ 2/380 میں روایت کیا ہے۔
اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: منکر الحدیث ہے۔ ابن معین فرماتے ہیں یہ محض ہیچ ہے، دارقطنی وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ ابو حاتم رازی نے اسے ضعیف الحدیث قرار دیا ہے۔ ابن عدی فرماتے ہیں اس کی روایات غیر محفوظ ہیں اور میمون سے اس کی روایات منکر ہیں۔
(میزان الاعتدال 3/341 المغنی فی الضعفاء 2/185 الجرح والتعدیل 7/1455 الکامل لابن عدی 6/2050)
اور اس کی یہ روایت میمون بن مہران سے ہی ہے لہذا منکر ہے۔
4۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایۃ 7/117 میں اور حافظ ابن حجر نے الاصابہ 3/117 میں واقدی کی روایت اس کے مشائخ سے نقل کی ہے لیکن یہ محمد بن عمر الواقدی متروک کذاب ہے۔ ابن عدی فرماتے ہیں، یہ غیر محفوظ روایت بیان کرتا ہے، امام نسائی فرماتے ہیں یہ روایتیں گھڑتا ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: ان کے متروک ہونے پر اجماع ہے۔ (المغنی فی الضعفاء 2/354 میزان 3/262)
امام احمد بن حنبل امام نسائی وغیرہما نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں، واقدی کی کتابیں سب جھوٹ ہیں۔ (تھذیب 5/234'235)
5۔ سیف بن عمر کی اپنے مشائخ سے روایت۔ (البدایہ 7/116 الاصابہ 3/5)
امام ذہبی نے فرمایا یہ بالاتفاق متروک ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں یہ موضوع روایات بیان کرتا ہے۔ امام ابن معین، ابو حاتم رازی، ابوداؤد، نسائی، دارقطنی، ابن عدی نے ضعیف متروک اور وضاع قرار دیا ہے۔ (المغنی 1/460 تھذیب 2/270)
6۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
" وقد رواه الحافظ ابو القاسم الالكائى من طريق مالك عن نافع عن ابن عمر " (البدایہ والنھایۃ 7/117)
حافظ ابو القاسم الالکائی نے مالک کے طریق سے از نافع از ابن عمر بیان کیا ہے۔ لیکن خود اس کے بعد فرماتے ہیں۔ "و فی صحته من حدیث مالک نظر" اس روایت کا مالک کی حدیث سے صحیح ہونے میں نظر ہے اور یہ ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ میں بھی موجود نہیں یا تو یہ امام ابن کثیر کا وہم ہے یا کوئی اور کتاب مراد ہو گی۔ واللہ اعلم
7۔ حافظ ابو القاسم اللالکائی نے ہشام بن محمد بن مخلد بن مطر قال نا ابو توبہ قال: نا محمد بن مہاجر عن ابی بلج علی بن عبداللہ کی سند سے بھی اس واقعہ کو بیان کیا۔ (شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ 7/1330)
اس سند میں ہشام بن محمد اور ابو بلج علی بن عبداللہ کے حالات معلوم نہیں۔
8۔ ابوبکر بن خلاد کی "فوائد" میں بطریق ایوب بن خوط عن عبدالرحمٰن السراج عن نافع بحوالہ سلسلہ الصحیحہ (1110) لیکن اس سند میں بھی ایوب بن خوط متروک راوی ہے۔
امام بخاری، امام ابن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام عمرو بن علی الفلاس، امام ابو حاتم، امام احمد، امام ابو داؤد، امام حاکم ابو احمد کے ہاں ضعیف متروک ہے۔
بلکہ امام باجی فرماتے ہیں: اس کے متروک الحدیث ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ یہ باطل روایات بیان کرتا تھا۔ یہ نہ احکام میں حجت ہے اور نہ کسی اور چیز میں (تہذیب 1/254)
لہذا یہ روایت اپنے جمیع طرق کے ساتھ ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔
علامہ زیلعی نے لکھا ہے۔
" وكم من حديث كثرت رواته وتعددت طرقه ، وهو حديث ضعيف " (نصب الرایہ 1/359'360)
"کتنی ہی ایسی روایتیں ہیں جن کے راوی کثیر ہیں اور سندیں بہت ہیں لیکن وہ ضعیف ہیں۔ لہذا ہر کسی روایت کو تعدد طریق کی بنا پر حسن کہہ دینا درست نہیں۔"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہونے پر یا محمد کا نعرہ لگانے والی روایت کا جائزہ
اس روایت کو امام بخاری نے الادب المفرد (964) میں بطریق سفیان عن ابی اسحٰق عن عبدالرحمان بن سعد بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہو گیا تو انہیں ایک آدمی نے کہا: جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کریں تو انہوں نے کہا "یا محمد"
یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ اس میں مرکزی راوی ابو اسحٰق السبیعی ہے جو کہ مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ پھر ابو اسحاق السبیعی کو اختلاط بھی ہو گیا تھا۔ وہ اس کے بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہے۔ کبھی اس روایت کو الھیثم بن حنش جیسے مجہول راوی سے (ابن السنی (170) کبھی ابو شعبہ سے (ابن السنی 168) اور کبھی عبدالرحمٰن بن سعد سے (الادب المفرد (964) اور ابن السنی (172) بیان کرتا ہے۔ لہذا یہ روایت ابو اسحاق کی تدلیس اور اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔
مجاہد کہتے ہیں کہ ایک آدمی کی ٹانگ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سن ہو گئی تو اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اپنے سب سے محبوب شخص کو یاد کرو تو اس نے کہا "محمد صلی اللہ علیہ وسلم" تو اس کی ٹانگ کی بے حسی ختم ہو گئی۔ (ابن السنی 129)
یہ روایت موضوع ہے اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم کذاب و خبیث اور وضاع راوی ہے۔
(المغنی 2/49036، میزان 3/337، الکامل 6/2036، احوال الرجال (370)
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آ کر ندا کرنے کے بارے مالک الدار کی روایت)
مالک الدار کی اس روایت کو حافظ ابو یعلی خلیلی نے:
"الارشاد فی معرفتہ علماء الحدیث 1/213'314 میں ابن ابی شیبہ نے "المصنف" 12/31'32 میں اور امام بیہقی نے "دلائل النبوۃ" 7/27 میں ابو معاویہ محمد بن خازم الضریر حدثنا الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار کی سند سے روایت کی ہے۔ اور امام بیہقی سے امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایۃ 7/82 میں اور ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ابن حجر نے فتح الباری 2/490 میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں سلیمان بن مہران الاعمش مدلس راوی ہیں۔ روایت عن کے لفظ سے کر رہے ہیں اور اپنے استاذ سے سننے کی تصریح نہیں کی۔
اعمش کی تدلیس کی بنا پر محدثین نے کئی ایک روایات کو رد کیا ہے۔
امام ابن خزیمہ نے کتاب التوحید، باب ذکر اخبار رؤیتہ تعالٰی ص: 38 میں امام ابن عبدالبر نے التمھید 10/228، 1/30 میں ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الحبیر 3/19 وغیرہ میں اعمش کو مدلس قرار دے کر ان کی روایات کو رد کیا ہے۔
اوپر گزر چکا ہے کہ مدلس کا عنعنہ بالاتفاق مردود ہے۔ مولوی محمد عباس رضوی نے ایک روایت کے بارہ میں لکھا ہے کہ "اس روایت میں ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔ (واللہ آپ زندہ ہیں ص: 351)
اسی طرح ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ "چونکہ اس سند میں بھی امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ نے "عن" سے روایت کی۔ وہ چونکہ مدلس ہیں لہذا یہ روایت ناقابل قبول ہے" (واللہ آپ زندہ ہیں: ص 354)
جس روایت کو رضوی صاحب ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں یہ بھی ابو معاویہ از اعمش ابی صالح سے مروی ہے۔ اگر یہ ناقابل قبول ہے تو مالک الدار کی یہ روایت جو اسی سلسلے سے مروی ہے قابل قبول کیوں؟ مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مذکورہ بالا روایات ثلاثہ ناقابل حجت اور مردود ہیں۔
ان پر عقیدہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ویسے بریلوی حضرات کا یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں اخبار آحاد صحیح بھی حجت نہیں۔ امام البریلویہ احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں عقائد میں حدیث آحاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں۔
یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار ہے، علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں: حدیث آحاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو، ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے۔ اور معاملہ اعتقاد میں ظنیات کا کچھ اعتبار نہیں۔
ملا علی قاری مخ الروض الازھر میں فرماتے ہیں:
"الآحاد لا تفيد الاعتماد فى الاعتقاد" احادیث آحاد دربارہ اعتقاد ناقابل اعتماد " (فتاوی رضویہ 5/478)
"لہذا جب عقائد میں خبر واحد صحیح بھی ناقابل اعتماد ہے تو پھر ضعیف اور موضوع روایات کس طرح قابل اعتماد و حجت مان کر باطل عقائد کشید کئے جاتے ہیں۔"
اصل دین قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہیں۔ ہمیں اپنے عقائد اور اعمال کتاب و سنت کے موفق رکھنے چاہئیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب