سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(4) ندائے لغیر اللہ کی شرعی حیثیت

  • 21344
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1000

سوال

(4) ندائے لغیر اللہ کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ ندائے لغیر اللہ کے ثبوت میں چند ایک احادیث پیش کرتے ہیں ان کی تحقیق مطلوب ہے؟

1۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ساریہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا ایک دن عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے تو دوران خطبہ بلند آواز سے کہا یا ساری الجبل (اے ساریہ پہاڑ کے ایک جانب ہو جاؤ) پھر لشکر میں سے ایک قاصد آیا اس نے کہا اے امیر المومنین ہمیں ہمارے دشمن نے شکست دے دی کیا یہ روایت اسنادی لحاظ سے صحیح ہے؟

2۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا پاؤں سوج گیا تو انہوں نے یا محمد کا نعرہ لگایا تو پاؤں درست ہو گیا۔

3۔ مالک الدار بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط پڑ گیا تو ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر کہا " يا نبي الله استسق الله لأمّتك "

اے اللہ کے نبی اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے پانی طلب کریں۔"

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے خواب میں ملے اور کہا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر میرا سلام کہہ اور انہیں کہہ کہ تمہیں پانی پلایا جائے گا۔ تم دانائی کو لازم پکڑو۔ مالک الدار کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہا اے میرے پروردگار میں نے کوتاہی نہیں کی مگر اس چیز میں جس سے میں عاجز آگیا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ صریحہ سے یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہے کہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر پکارنا شرک ہے جو لوگ فوت شدگان کو مشکل اور مصیبت کے وقت پکارتے ہیں وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ فوت شدہ بزرگ دور و نزدیک سے ہماری فریاد سننے پر قادر ہیں ہم جب بھی انہیں پکارتے ہیں ہماری بلائیں ٹل جاتی ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہے اسی لئے یا شیخ عبدالقادر جیلانی شئیا للہ، یا علی مدد، یا رسول اللہ مدد وغیرہ کہتے ہیں۔ حالانکہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ مشکل کے وقت اللہ ہی کو پکارنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾

پس تم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہ پکارو۔ (الجن 18:72)

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ كُلُّ شَىءٍ هالِكٌ إِلّا وَجهَهُ لَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ ﴿٨٨﴾... سورة القصص

"اور تو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو مت پکار۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اللہ کے سوا سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔"

قرآن حکیم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے جو چیزیں ختم اور فنا ہو جانے والی ہیں انہیں پکارنا درست نہیں اور ساری کائنات کو زوال اور فنا ہے کوئی چیز بھی مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور نیک بندوں کو بھی موت سے ہمکنار کیا ہے اور کرتا رہے گا لہذا اللہ کے یہ نیک بندے بھی پکار کے لائق نہیں۔

الغرض غیراللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے مشکلات و مصائب میں پکارنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ یہ قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اب ہم سوال میں ذکر کردہ روایات کی تحقیق کی طرف آتے ہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب العقائد و التاریخ-صفحہ45

محدث فتویٰ

تبصرے