بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے جس خطے میں بھی درود پڑھا جائے تو وہ آواز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ جاتی ہے اور آپ اسے سنتے ہیں اور اس کے لئے امام ابن قیم کی ("جلاء الافھام" ص: 96) سے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:
کیا یہ روایت صحیح ہے؟ بالتفصیل وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ (محمد عثمان۔ لاہور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھنا ہر مسلم پر لازم ہے اور درود نہ پڑھنے والا بخیل ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے:
"بےشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس نبی پر صلاۃ و سلام بھیجتے رہو۔"
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلاۃ و سلام پڑھنا چاہئے اور احادیث صحیحہ میں آپ پر صلوۃ بھیجنے کے بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی درود پڑھا جا رہا ہو اس کی آواز آپ سنتے ہیں یا وہ آواز آپ تک پہنچ جاتی ہے۔
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے صلوۃ و سلام پر جو کتاب بنام "جلاء الافھام" تحریر کی ہے اس میں ایک روایت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ درج ہے:
"ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ والے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو یہ ایسا دن ہے جس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
جو بھی آدمی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ ہم نے کہا آپ کی وفات کے بعد بھی؟ تو آپ نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی۔ بےشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔"
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ حافظ عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
" ان سناده لا يصح "(القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص: 159)
بلاشبہ اس کی سند صحیح نہیں۔ اس کی سند صحیح نہ ہونے کی دو علتیں ہیں۔
(1) سعید بن ابی مریم اور خالد بن یزید کے درمیان انقطاع ہے یعنی سعید نے یہ روایت خالد سے نہیں سنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خالد بن یزید 139ھ میں فوت ہوئے۔ (تھذیب التھذیب 2/178)
سعید بن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی۔ (تھذیب التھذیب 2/296)
یعنی سعید خالد کی وفات کے پانچ سال بعد پیدا ہوا۔ لہذا جو راوی اوپر والے راوی کے پانچ سال بعد پیدا ہوا اس کا سماع کس طرح ہو سکتا ہے اور اس کی روایت کیسے درست اور صحیح ہو سکتی ہے؟
(2) دوسری علت یہ ہے کہ سعید بن ابی ھلال اور ابو درداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی انقطاع ہے سعید بن ابی ھلال مصر میں 70ھ میں پیدا ہوئے۔ (تھذیب التھذیب 2/342)
جب کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخر میں فوت ہو چکے تھے۔ (تقریب ص: 52)
اور عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریبا 35 سال بعد سعید بن ابی ھلال مصر میں پیدا ہوا۔
امام صلاح الدین العلائی رحمۃ اللہ علیہ نے (جامع التحصیل: ص 224) میں لکھا ہے کہ سعید کی روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مرسل ہے اور جابر رضی اللہ عنہ مدینہ میں 70ھ کے بعد فوت ہوئے۔ (تقریب ص: 52)
جب اس کی روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مرسل ہے تو جابر رضی اللہ عنہ سے پہلے فوت ہونے والے صحابی ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔
علاوہ ازیں امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے (القول البدیع ص: 185) میں طبرانی کبیر سے یہ روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
" واخرجه الطبرانى فى الكبير بلفظ اكثروا الصلوة يوم الجمعة فانه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي عليَّ إلا بلغتنى صلاته حيث كان "اور امام طبرانی نے "معجم الکبیر" میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ نکالی ہے:
"جمعہ والے دن کثرت سے صلاۃ بھیجو یہ ایسا دن ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نہیں ہے کوئی بندہ جو مجھ پر صلاۃ بھیجتا ہے مگر مجھے اس کی صلاۃ پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو"۔
یعنی جلاء الافہام میں بلغتنی صوتہ ہے جب کہ القول البدیع میں طبرانی کے حوالے سے صوتہ کی بجائے صلاتہ ہے پہلے الفاظ کا مطلب مجھ پر صلاۃ پڑھنے والے کی آواز پہنچ جاتی ہے جب کہ دوسرے الفاظ کا مطلب مجھے اس کی صلاۃ پہنچ جاتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کے متن کے نقل کرنے میں بھی اختلاف ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جلاء الافھام میں تصحیف ہو گئی ہے صلاتہ کا لفظ صوتہ سے بدل گیا ہے اور صحیح یہی ہے کہ آپ کو درود پڑھنے والے کا درود پہنچ جاتا ہے نہ کہ اس کی آواز۔ اس کی تائید دیگر احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے۔
آواز پہنچنے والی روایت سند اور متن کے لحاظ سے کمزور ہے۔ اس لیے جو لوگ کہتے ہیں "ہم یہاں پہ پڑھیں وہ وہاں پہ سنیں۔ ان کی سماعت پر لاکھوں سلام" ان کی یہ بات بے دلیل ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب