السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قرآنی یا مسنون دعا میں صیغہ بدلا جا سکتا ہے؟
مثلاً: (يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ) کو (نسْتَغِيثُ) پڑھنا؟
(ایک سائلہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بہتر یہی ہے کہ قرآن و حدیث میں وارد دعاؤں کو اسی صیغے میں پڑھا جائے جس میں وہ وارد ہیں، لیکن دودلیلوں کی روسے کبھی کبھار صیغہ بدلنا یعنی واحد کی جگہ جمع کا لفظ استعمال کرلینا بھی جائز ہے۔
1۔اگر امام ہے تو دعائے قنوت میں صرف اپنے لیے ہی دعا نہ مانگے بلکہ اپنے مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شریک کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يَؤُمُّ رَجُلٌ قَوْمًا فَيَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ ، فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ "
"کوئی آدمی بھی لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت ان کے علاوہ صرف اپنے لیے دعا (دعائے قنوت) نہ مانگے اور اگر اس نے ایسا کیا تو خیانت کی۔"
(سنن ابی داؤد 90وسندہ حسن سنن ترمذی 357سنن ابن ماجہ 619۔923)
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں دعا کے بارے میں فرمایا:
"ثم ليتخير من الدعاء أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَلْيَدْعُ بِهِ"
"پھر جو دعا بھی پسند ہوتو وہ مانگے۔"
(صحیح بخاری کتاب الاذان باب مایتخیرمن الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب ح835)
جب تشہد میں عربی زبان میں کوئی بھی دعا مانگی جا سکتی ہے تو قنوت میں بدرجہ اولیٰ دوسری دعا جائز ہے۔ تشہد میں"السلام عليك أيها النبي" کے صیغے کو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے "السلام على النبي " سے بدل دیا تھا۔(دیکھئے صحیح بخاری کتاب الا ستذان باب الاخذ بالیدین ح6265)
ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت مسنون دعا کا صیغہ بدلنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب