السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اوجھری بالعموم اور قربانی کے جانور کی اوجھری بالخصوص حلال ہے یا حرام؟وضاحت مطلوب ہے۔(ارشاد اللہ امان ،شیخوپورہ شہر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حلال جانور مثلاً گائے بھینس ،اونٹ ،بکری اور بھیڑ وغیرہ کو شرائط شرعیہ کے ساتھ ذبح کیا جائے تو اس کی اوجھری حلال ہے چاہے قربانی ہو یا عام ذبیحہ ہواور اسےحرام کہنا غلط ہے۔
قربانی کے جانوروں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِذا وَجَبَت جُنوبُها فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ... ﴿٣٦﴾... سورةالحج
"پھر جب وہ پشت لگادیں(یعنی ذبح ہو جائیں) تو ان میں سے کھاؤ اور امیر و غریب کو کھلاؤ۔(الحج:36)
اس آیت کے عموم سے ثابت ہے کہ ذبح شدہ جانور کا گوشت اوجھری کلیجی اور دل وغیرہ حلال ہیں اور یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ جس چیز کی حرمت قرآن حدیث اور اجماع یا آثار سلف صالحین سے ثابت ہے تو وہ چیزاس آیت کے عموم سے خارج ہے۔ مثلاً :
1۔وہ چیز جسے عام اہل ایمان کی طبعیتیں خبیث اور گندی سمجھیں تو آیت:
"وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ"
"اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )ان لوگوں پر خبیث چیزیں حرام قراردیتے ہیں"
(الاعراف :157)کی روسے مکروہ تحریمی یا تنزیہی ہیں۔
اوجھری کا خبیث ہونا نہ تو آثار سلف صالحین سے ثابت ہے اور نہ عام اہل ایمان اس کو گندایا مکروہ و ناپسندیدہ سمجھتے تھے۔
2۔وہ چیز جو چوری یا غصب کرکےحاصل کر لی جائے۔مثلاً کسی شخص کی بکری چوری کے ذبح کیا جائے تو مسلمانوں کے لیے اس کا گوشت حلال نہیں ہے الایہ کہ اصل مالک اجازت دے دے۔
3۔وہ حلال جانور جس کی خوراک ہی گندگی نجاست ہو(یعنی جلالہ جانور)اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔
4۔زندہ جانور کا کٹا ہوا گوشت حرام ہے وغیرہ۔
اب موضوع کی مناسبت سے چند فوائد پیش خدمت ہیں:
1۔مفسر قرآن امام مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے:
"عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ مِنَ الشَّاةِ سَبْعًا : الدَّمَ ، وَالْحَيَا ، وَالأُنْثَيَيْنِ ، وَالْغُدَّةَ ، وَالذَّكَرَ ، وَالْمَثَانَةَ ، وَالْمَرَارَةَ ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ مِنَ الشَّاةِ مُقَدَّمَهَا"
بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکری کی سات چیزوں کو مکروہ سمجھتے تھے۔مثانہ پتا غدہ(گوشت کی گرہ جو کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے ابھرآتی ہے)آلہ تناسل کھر اور سم والے جانوروں کی فرج(شرمگاہ)اور دونوں خصیے۔(کتاب المراسیل لابی داؤد :460،مصنف عبدالرزاق 4/535ح8771دوسرا نسخہ :8802،السنن الکبری للبیہقی 10/7)
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
اول:واصل بن ابی جمیل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ مثلاً امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وواصل هذا ضعيف"اور یہ واصل ضعیف ہے"(سنن دارقطنی 3/77ح3059)
دوم:روایت مرسل (یعنی منقطع)ہے اور مرسل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔ روایت مذکورہ کو عمر بن موسیٰ بن وجیہ نے واصل بن ابی جمیل عن مجاہد ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے مرفوعاً بیان کیا ہےلیکن عمر بن موسیٰ بن وجیہ کذاب منکر الحدیث راوی تھا۔(دیکھئے لسان المیزان 4/332۔333دوسرا نسخہ 5/241)
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔
المعجم الاوسط للطبرانی میں اس روایت کا ایک شاہد بھی ہے۔
(10/217ح9476مجمع الزوائد 36)
اس کی سند میں یحییٰ الحمانی چور تھا۔ دیکھئے تقریب التہذیب :7591)
اس کے استاد عبدالرحمٰن بن ابی سلمہ سے مراد عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم ہے اور اس کی روایات اس کے باپ سے موضوع ہوتی ہیں اور یہ روایت بھی اس کے باپ سے ہے لہٰذا موضوع ہے۔
علاء الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی (متوفی 587ھ)نے بغیر کسی سند کے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا کہ خون حرام ہے اور میں چھ چیزوں کو مکروہ سمجھتا ہوں۔(بدائع الصنائع 5/61)
یہ روایت قابل اعتماد صحیح و حسن سند نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے اور چھ چیزوں سے مراد ضعیف حدیث میں بیان شدہ خون کے علاوہ چھ چیزیں ہیں، جس کی تحقیق تھوڑا پہلے گزر چکی ہے۔
شرائط شرعیہ کے ساتھ ذبح شدہ حلال جانور کی اوجھری حلال ہے، بشرطیکہ اسے خوب دھو دھو کر خوب صفائی کر کے پکایا جائے اور کسی قسم کی نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہا ہو۔(29/دسمبر2010ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب