سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) ایک دوسرے کو سلام کہنا

  • 21331
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1046

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں الفاظ "سلام علیکم"ہیں۔

اسی طرح صحیح ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ میں بھی ہیں۔ جیسا کہ امام دمیاطی نے "المتحبرالرابح"میں نقل فرمایا:سوال یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت"سلام علیکم" کہتے ہیں جب کہ سلام کے حوالے سے اکثر احادیث میں"سلام علیکم"کے الفاظ ہیں جیسا امام نووی نے ریاض الصالحین میں اکثر ایسی احادیث کو جمع کر دیا ہے۔(محمد صدیق تلیاں ،سمندرکٹھ ایبٹ آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"اسلام علیکم" کہنا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔(مثلاً دیکھئے صحیح بخاری 6227)صحیح مسلم :2841/7163)

"سلام علیکم"بھی صحیح ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔(دیکھئےسورہ الانعام :54الاعراف :46الزمر:73)

اسی طرح صرف سَلَامٌ  اور سَلَامًا بھی آیا ہے۔(مثلاًدیکھئے سورہ ھود:69)

لیکن کسی آیت یا حدیث میں سلام علیکم نہیں آیا اور نہ ایسے الفاظ سلف صالحین سے آئے ہیں لہٰذا سلام علیکم (یعنی م کی ایک پیش کے ساتھ ) نہیں بلکہ"السلام علیکم"کہنا چاہیے جو کہ مسنون ہے۔ یاد رہے کہ سلام کہنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا ضروری (فرض و واجب )لہٰذا سلام کہنے والے کا جواب بھی صحیح اور بہتر طریقے سے دینا چاہیے۔ مثلاً السلام علیکم کا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ یا وعلیکم السلام کے الفاظ سے جواب دینا چاہیے۔ جو لوگ سلام کے جواب میں صرف سر ہلا کر یا مسنون الفاظ کے بغیرجواب دیتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں بلکہ گناہ کے مرتکب ہیں۔

فائدہ:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔

(دیکھئے سنن ابی داؤد:5195وسندہ حسن سنن الترمذی :2689وقال حسن صحیح غریب)(20/نومبر2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔متفرق مسائل-صفحہ278

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ