سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سورج کی واپسی ؟

  • 21324
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3282

سوال

(71) سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سورج کی واپسی ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر فوت ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورج کو واپس لوٹایا۔ اس واقعے کی کیا حقیقت ہے؟(محمد انور راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فضیل بن مرزوق (حسن الحدیث و ثقہ الجمہور ) نے ابرا ہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب عن (اَمہ ) فاطمہ بنت الحسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   (ثقہ)عن اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی سند سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر وحی آرہی تھی اور آپ کا سر (سیدنا) علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی گود میں تھا، پس انھوں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی حتی کہ سورج غروب ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں!

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ"

"اے اللہ! وہ تیری اطاعت اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس کے لیے سورج کو واپس بھیج دے۔

اسماء نے کہا: پس میں نے اسے(سورج کو)دیکھا ،غروب ہوا پھر دیکھا کہ غروب ہونے کے بعد(دوبارہ)طلوع ہوا۔(مشکل الآثار للطحاوی طبعہ جدیدہ 3/92ح1067طبعہ قدیمہ 2/8المعجم الکبیر للطبرانی 24/147۔152ح390،

الاباطیل والمناکیر للجورقانی 1/158الموضوعات لا بن الجوزی 1/355)

اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ابراہیم بن حسن بن حسن بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صریح توثیق زمانہ تدوین حدیث میں سوائے حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  کے کسی نے بھی نہیں کی اور مجہول و مستور کی توثیق میں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  متساہل تھے لہٰذا ابراہیم بن حسن مذکورمجہول الحال ہیں اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں ضعیف راویوں میں ذکر کیا ہے۔

دیکھئے دیوان الضعفاء والمتروکین(1/46ت169)

حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:فضیل بن مرزوق کا ابراہیم (بن حسن بن حسن )سے سماع معلوم نہیں ابراہیم کا( اپنی ماں) فاطمہ سے اور فاطمہ کا اسماء( بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )سے سماع معلوم نہیں ہے۔(منہاج السنہ 4/190)

محمد بن موسیٰ الفطری المدنی رحمۃ اللہ علیہ (ثقہ وصدوق) نے"

"عون بن محمد بن امه ام جعفر عن اسماء بنت عميس رضي الله عنها"

"کی سند نقل کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبہاء (ایک مقام )میں ظہر کی نماز پڑھی پھر علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی ضرورت کے لیے بھیجا پھر وہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  عصر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا سر (مبارک)علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی گود میں رکھا تو انھوں نے سورج کے غروب ہونے تک کوئی حرکت نہیں کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللَّهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّكَ ، فَرُدَّ عَلَيْهِ شَرْقَهَا "

"اے اللہ!تیرے بندے علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے اپنے آپ کو تیر ےنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے سورج کو لوٹا دے۔

اسماء( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )نے کہا: پھر سورج طلوع ہو گیا حتی کہ پہاڑوں اور زمین پر دھوپ چھاگئی۔پھر علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کھڑے ہوئے تو وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی پھر سورج غروب ہو گیا۔یہ واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر صبہاء (نامی مقام)میں ہوا۔

(شرح مشکل الآثار 3/94ح1068دوسرانسخہ 2/9،المعجم الکبیر للطبرانی 24/145ح382)

اس کی روایت کی سند ضعیف ہے۔

عون بن محمد اور اُم جعفر (اُم عون بنت محمد بن جعفر )دونوں کی توثیق نامعلوم ہے یعنی دونوں مجہول الحال تھے۔

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:عون اور اس کی ماں(اُم جعفر)کی عدالت اور حفظ معلوم نہیں ہے۔(منہاج السنہ ج4ص189)

اُم جعفر کااسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سماع بھی نامعلوم ہے۔(ایضاً189)

تنبیہ:بعض روایات میں(سیدہ)اسماء ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )سے فاطمہ بنت حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے سماع کی تصریح موجود ہے لیکن ان میں مروان بن معاویہ الفزاری اور شریک بن عبداللہ القاضی (مدلسین)کے عنعنوں (عن سے روایت کرنے وغیرہما) کی وجہ سے نظر ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

سیدنا المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے سورج کی واپسی والی روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف یعنی مردود ہے۔

ابن عقدہ رافضی اور ابن مردویہ والی روایات بھی ضعیف و مردود ہیں۔ ابن مردویہ والی روایت میں یزید بن عبدالملک النوفلی (ضعیف )ہے۔(دیکھئے منہاج السنہ 4/193من طریق یحییٰ بن یزید بن عبد الملک النوفلی عن ابیہ عن داؤد بن فراھیج عن عمارہ بن فروعن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  )

النوفلی کے ضعیف کے لیے دیکھئے تقریب التہذیب(7751)اور میزان الاعتدال(4/414ت9651ترجمہ یحییٰ بن یزید بن عبدالملک )

اس موضوع کی مردودروایات کی مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے منہاج السنہ (4/185۔195)وما علینا الا البلاغ(14/جنوری 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ259

محدث فتویٰ

تبصرے