السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آیت کریمہ:
﴿إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَالَّذينَ ءامَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكوٰةَ وَهُم رٰكِعونَ ﴿٥٥﴾... سورةالمائدة
"بے شک تمھارا ولی (مددد گار ، دوست )اللہ اور اس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ)وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔"کے شان نزول میں بیشتر محدثین نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی ہے۔
"عن عمار بن ياسر قال : " وقف بعلي سائل وهو راكع في صلاة تطوع فنزع خاتمه فاعطاه السائل فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فاعلمه ذلك فنزلت على النبي صلى الله عليه و سلم هذه الآية إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون فقرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم على أصحابه ثم قال : من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه "
"سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ نماز میں حالت رکوع میں تھے۔ آپ نے اپنی انگوٹھی کھینچی ،پھر سائل کو عطا فرما دی۔ سیدنا علی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی ۔ اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ آپ نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا:" جس کامیں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے ،اے اللہ! جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ۔"
1۔طبرانی المعجم الاوسط 7،129،130،رقم 6228۔
2۔احمد بن حنبل،المسند 1،119،
3۔احمد بن حنبل،المسند4،372۔
4۔حاکم المستدرک 3،119،371،رقم حدیث 4576،5594،
5۔طبرانی المعجم الکبیر 4،174،رقم 4053۔
6۔ طبرانی المعجم الکبیر 5،195،203،204،رقم5068،5069،5097۔
7۔ طبرانی المعجم الکبیر 1،65۔
8۔ہیثمی مجمع الزوائد 7،17۔
9۔ہیثمی موارد الظمان :544،رقم 2205۔
10۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد7،377۔
11۔ابن اثیر ،اسد الغابۃ3،487۔ابن اثیر اس الغابۃ 2،362۔
12۔ضیاء مقدسی ،الاحادیث المختارہ 2، 106،174رقم، 480،553۔
13۔حسام الدین ہندی ،کنز العمال 11، 332، 333، رقم 36340،36511۔
روایت مذکورہ و آیت کریمہ کی مکمل تخریج (درکار ہے)اور آپ شیعہ اس سے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولایت مراد لے کر خلافت بلا فصل علی کی ثابت کرتے ہیں۔رسالہ الحدیث میں اس کا جواب دیجیئے۔(سید امیر شاہ بخاری صوابی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جن روایات کے تیرہ (13)حوالے دیے ہیں ان کی مختصر اور جامع تحقیق درج ذیل ہے۔
1۔امام طبرانی کی کتاب المعجم الاوسط میں اس روایت کی سند درج ذیل ہے۔
"حدثنا محمد بن علي الصائغ قال حدثـنا خالد بن يزيد العمري قال حدثـنا إسحاق بن عبد الله بن محمد بن علي بن حسين عن الحسن بن زيد عن أبيه زيد بن بن الحسن عن جده قال:سمعت عمار بن ياسر يقول" (7/129۔130ح6228)
اسے ابن مردویہ نے بھی خالد بن یزید العمری کی سند سے روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وفي سنده . - . . خالد بن يزيد العمري وهو متروك "
اور اس(ابن مردویہ)کی سند میں خالد بن یزید العمری ہے اور وہ متروک ہے۔(الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لا بن حجر 1/ 649المائدہ : 55)
اس روایت کے بنیادی راوی خالد بن یزید العمری کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:" کذاب"وہ جھوٹا ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل 3/360وسندہ صحیح)
امام ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"كان كذابا اتيته بمكة ولم اكتب عنه وكان ذاهب الحديث"
"وہ کذاب (جھوٹا)تھا میں اس کے پاس مکہ آیا اور اس سے (کچھ )نہیں لکھا اور وہ حدیث میں گیا گزرا تھا۔(ایضاًص360رقم 1630)
حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر شدید جرح کی ۔(دیکھئے کتاب المجروحین 1/284۔285لسان المیزان2/389دوسرا نسخہ 2/741)
اور حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"وفيه خالد - . ابن يزيد العمري وهو كذاب"
اور اس (روایت)میں خالد بن یزید العمری ہے اور وہ کذاب (جھوٹا) ہے:
(مجمع الزوائد 3/296کتاب الحج باب التحفظ من المعصیۃ فیہا و فیما حولھا )
کذاب کی روایت موضوع ہوتی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع (من گھڑت )ہے۔ اس کا دوسرا راوی اسحاق بن عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین نامعلوم ہے اور غالباً اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"
"رواه الطبراني في الأوسط والصغير ، وفيه من لم أعرفهم "
اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا۔(مجمع الزوائد 7/17سورۃ المائدہ )
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت اور دوسری روایات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
"وَلَيْسَ يَصِحّ شَيْء مِنْهَا بِالْكُلِّيَّةِ لِضَعْفِ أَسَانِيدهَا وَجَهَالَة رِجَالهَا"
ان(روایات )میں سے سرے سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے سندوں کے ضعف اور راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے۔(تفسیر ابن کثیر2/567المائدہ:55)
روایت مذکورہ کو شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے۔(ج10ص582ح4921)
تنبیہ:سائل نے روایت مذکورہ کے بارے میں (غالباً شیعہ کی کتابوں سے)تیرہ حوالے لکھے ہیں لیکن ان حوالوں میں سے صرف حوالہ نمبر1(المعجم الاوسط للطبرانی:6280)اور حوالہ نمبر8(مجمع الزؤائد للہیثمی 7/17) میں روایت موجود ہے اور مذکورہ دوسرے حوالوں میں سے کسی ایک میں بھی یہ روایت اس متن سے موجود نہیں ہے۔
1۔ طبرانی اور ابن مردویہ کی روایت مذکورہ کی تائید میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایت بیان کی گئی ہے۔(بحوالہ علوم الحدیث للحاکم 102ح240، دوسرا نسخہ ص334 تاریخ دمشق لا بن عساکر 42/356۔357۔45/303دوسرا نسخہ 45/27147۔ 48/202)
اس روایت میں عیسیٰ بن عبد اللہ بن محمد بن عمربن علی العلوی جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"يقال له: مبارك ، وهو متروك الحديث"
اسے مبارک (بھی)کہا جاتا ہے اور وہ حدیث میں متروک ہے۔(سنن دارقطنی 2/263۔264۔ح2606)
حاکم نیشاپوری نے کہا:
"روى عن ابيه عن آبائه أحاديث موضوعة"
اس نے عن ابیہ عن آباہ کی سند سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔(المدخل الی الصحیح ص170،رقم 127)
ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"
"روى عن آبائه أحاديث مناكير ، لا يكتب حديثه ، لا شيء"
"اس نے اپنے باپ سے آباء واجداد کی سند کے ساتھ منکر حدیثیں بیان کیں، اس کی حدیث لکھی نہیں جاتی (یا لکھی نہ جائے)وہ کوئی چیز نہیں ہے۔(کتاب الضعفاء ص122،رقم 175)
عیسیٰ بن عبد اللہ الہاشمی نے روایت مذکورہ اپنے آباء واجداد کی سند سے بیان کی ہے۔مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت موضوع ہے۔
ایک روایت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے لیکن اس کی سند میں محمد بن مروان السدی کذاب راوی ہے۔(دیکھئے الحدیث حضرو :24ص50۔52)
بعض آثار پر بحث تیرھویں روایت کے آخر میں آ ئے گی۔ ان شاء اللہ۔
2۔عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی زوائد المسند والی روایت (ح961) کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
1۔یزید بن ابی زیاد جمہور (محدثین)کے نزدیک ضعیف ہے:(دیکھئے زوائد ابن ماجہ للبوصیری :2116ھدی الساری لا بن حجر ص459)
2۔یونس بن ارقم پر جمہور نے جرح کی ہے۔
ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"وھو لین"اور وہ کمزور ہے۔(مجمع الزوائد 7/239)
ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے دیوان الضعفاء میں ذکر کیا۔ (نیز دیکھئے لسان المیزان 6/331دوسرا نسخہ 7/553)
3۔مسند احمد (ح19325) والی روایت میں میمون ابو عبد اللہ ضعیف ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب :7051)
ابو عبید نا معلوم راوی ہے۔ (دیکھئے تعجیل المنفعہ لابن حجر ص570ت1337)
مغیرہ بن مقسم مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند بھی ضعیف ہے:
4۔مستدرک کی پہلی روایت (4576)میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں۔
(دیکھئے طبقات المدلسین :69طبقہ ثالثہ )اور سند عن سے ہے لہٰذاضعیف ہے:
دوسری روایت (ح5594)میں الحسن بن الحسین العرنی سخت مجروح ہے۔
ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"لم يكن بصدوق عندهم"
وہ ان (محدثین )کے نزدیک سچا نہیں تھا۔(کتاب الجرح والتعدیل 3/6)
امام ابن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:" روی احادیث مناکیر"
اس نے منکر حدیثیں بیان کیں۔(الکا مل 2/743)دوسرا نسخہ 3/181)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"الحسن هو العرني ليس بثقة"
حسن العرنی ثقہ نہیں ہے ۔(تلخیص المستدرک :5594)
5۔المعجم الکبیر للطبرانی (ح4053) کی روایت میں امام شریک بن عبد اللہ القاضی رحمۃ اللہ علیہ مدلس تھے۔(دیکھئے نصب الرایہ3/234المحلی لا بن حزم 8/263،10/333)
اور یہ روایت عن سے ہے لہٰذا ضعیف ہے۔
دوسرا یہ کہ اس میں شریک القاضی کے اختلاط کی علت بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم۔
6۔ المعجم الکبیر للطبرانی (5068) والی روایت میں یونس بن راقم ضعیف اور سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں اور سند عن سے ہے لہٰذا ضعیف ہے۔ باقی سند میں بھی نظر ہے۔
دوسری روایت (ح5069)میں عطیہ بن سعد العوفی جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے نیز وہ مدلس بھی تھا۔ (کمافی طبقات المدلسین : 122طبقہ رابعہ )
اور سند عن سے ہے۔
تیسری روایت میں ابو ہارون العبدی :عمارہ بن جوین متروک راوی ہے اور بعض نے اسے کذاب قراردیا ہے۔ الخ (دیکھئے تقریب التہذیب:4840)
ابو ہارون کا استاد:رجل مجہول ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند موضوع ہے۔
7۔ المعجم الصغیر للطبرانی(1/64۔65ح165)والی روایت میں اسماعیل بن عمرو بن کیجح الجبلی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔(دیکھئے مجمع الزوائد10/248)
8۔ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی مجمع الزوائد (7/17) کا حوالہ روایت نمبر1کے تحت گزر چکا ہے۔
9۔موارد الظمان (ح2205) یعنی صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (الاحسان :6892)دوسرا نسخہ :6931)والی روایت کی سند حسن لذاتہ (یعنی صحیح) ہے۔اس روایت میں غدیرخم کا بھی ذکر ہے اور لکھا ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قال : من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه "
"جس کا میں مولیٰ ہوں تو یہ (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ )اس کے مولیٰ ہیں اےاللہ! جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔
سنن ترمذی (3713وسندہ صحیح) میں اس روایت کا ایک صحیح مختصر شاہد بھی ہے جس کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "هذا حديث حسن غريب "مولیٰ کے لفظ پر بحث آخر میں آئے گی۔ ان شاء اللہ۔
10۔خطیب بغدادی (7/377)کی سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب :4734)
اور باقی سند بھی ضعیف و مردود ہے:
11۔اسد الغابہ (ہمارے نسخے 3/307طبع مکتبہ المعارف بالریاض )والی روایت میں اصبغ بن نباتہ متروک ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب:537)
اور باقی سند بھی مردود ہے:
دوسری روایت (ہمارے نسخہ 2/233) میں عمر بن عبد اللہ بن یعلیٰ بن مرہ التقفی ضعیف ہے۔(کمافی تقریب التہذیب:4933)
اور باقی سند بھی مردود بلکہ ابن عقدہ کی وجہ سے موضوع ہے۔
12۔المختار للضیاء المقدسی (2/105ح480)میں شریک القاضی مدلس ہیں لہٰذا یہ سند ضعیف ہے لیکن سابق شاہد (فقرہ : 9 ) کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے۔
دوسری روایت (ح553) کی سند حسن لذاتہ ہے جیسا کہ فقرہ نمبر9 کے تحت گزر چکا ہے۔
13۔کنز العمال (ح31662) والی روایت بحوالہ ابن عساکر ہے۔
تاریخ دمشق لا بن عساکر (25/108)دوسرا نسخہ 27/76) میں روایت :
"حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ إِيَاسٍ الضَّبِّيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ "
"کی سند سے مروی ہے۔ الحسن بن الحسین العرنی سچا نہیں تھا۔ دیکھئے فقرہ:4)اور باقی سند بھی ثابت نہیں ہے۔
دوسری روایت (ح36340) بحوالہ ابن جریر ہے۔
ہمیں اس کی سند نہیں ملی اور مشکل الآثارللطحاوی (5/18ح1765) میں اس مفہوم کی روایت حبیب بن ابی ثابت عن ابی الطفیل کی سند سے مروی ہے۔
حبیب مدلس تھے۔ (دیکھئے فقرہ:4)
اور روایت عن سے ہے لہٰذا طحاوی والی سند ضعیف ہے۔
تیسری روایت (36511) کو بحوالہ ابن راہویہ اور ابن جریر نقل کیا گیا ہے۔
روایت کی سند نہیں ملی لہٰذا یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اب بعض زیادات و فوائد پیش خدمت ہیں۔
1۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب موضوع روایت (دیکھئے فقرہ نمبر1)ذکر کر نے کے بعد فرمایا:
"ورواه الثعلبي من حديث أبي ذر مطولا وإسناده ساقط"
اور اسے ثعلبی نے ابو ذر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی حدیث سے مطولاً روایت کیا اور اس کی سند گری پڑی(یعنی مردود و موضوع )ہے۔(الکاف الشاف فی تخریج احادیث الکشاف 1/649)
2۔سلمہ بن کہیل(تابعی)سے ایک روایت میں آیا ہے کہ علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی صدقہ کردی تو یہ آیت (سورۃ المائدہ:55)نازل ہوئی (تفسیر ابن ابی حاتم4/1162،تاریخ دمشق 44/357دوسرا نسخہ 45/272البدایہ والنہایہ نسخہ محققہ7/590،591)
اس روایت کی سند سلمہ بن کہیل تک صحیح ہےلیکن یہ مرسل و منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وهذا لا يصح بوجه من الوجوه لضعف اسانيده"
"اور یہ بھی کسی سند سے صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند یں ضعیف ہیں۔(البدایہ والنہایہ 7/591)
3۔عتبہ بن ابی حکیم (تبع تابعی)سے روایت ہے کہ یہ آیت علی بن ابی طالب( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے بارے میں نازل ہوئی ہے(تفسیر ابن جریر طبری نسخہ محققہ 4/594ح12227)
اس میں ایوب بن سوید جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے لہٰذا سند ضعیف ہے۔
4۔مجاہد (تابعی و مفسر قرآن )سے روایت ہے کہ یہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی انھوں نے حالت رکوع میں صدقہ کیا تھا ۔(تفسیر ابن جریر 4/594ح12228)
اس کے راوی عبدالعزیز بن ابان بن محمد بن عبد اللہ الکوفی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"كذاب خبيث يضع الحديث"
کذاب خبیث ہے وہ حدیثیں گھڑتا ہے۔(سوالات ابن الجنید:82)
5۔اسماعیل بن عبدالرحمٰن السدی(سد کبیر ،تابعی)سے روایت ہے کہ یہ سارے مومنین ہیں لیکن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ایک سائل گزرا اور آپ مسجد میں حالت رکوع میں تھے پس آپ نے اسے اپنی انگوٹھی دے دی۔(تفسیر ابن جریر 4/594ح12224)
اس روایت کی سند سدی کبیر تک حسن ہے لیکن یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ سدی نے فرمایا: اس سے مراد مومنین ہیں اور علی ان میں سے ہیں( تفسیر ابن ابی حاتم 4/1162ح 6548)
اس کی سند سدی تک صحیح ہے اور بے شک سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مومنین میں ہیں۔
6۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی (تفسیر ابن کثیر 2/566)
اس روایت میں عبدالوہاب بن مجاہد سخت مجروح ہے لہٰذا یہ سند مردود ہے۔
اس مفہوم کی ایک دوسری روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے(ابن کثیر2/567)
اس کی سند منقطع ہے اور سفیان ثوری مدلس ہیں ان سے پہلے صاحب کتاب تک سند بھی نامعلوم ہے۔
سائل کی مسئولہ روایت موضوع ہے اور اس مفہوم کی تمام روایات ضعیف یا باطل و مردود ہیں۔
امام ابو جعفر الباقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور علی ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے۔(تفسیر ابن جریر 4/594۔12225)
امام ابو جعفر تک سند صحیح ہے(صححہ والالبانی فی الضعیفہ10/582)اور اس سے ثابت ہوا کہ آیت مذکورہ میں تمام صحابہ اور مومنین مراد ہیں۔
حدیث: "من كنت مولاه فعلي مولاه"
"جس کا میں مولیٰ ہوں تو علی اس کے مولیٰ ہیں" بالکل صحیح اور متواتر ہے۔ (دیکھئے میری کتاب : توضیح الاحکام عرف فتاوی علمیہ ج2ص267)
مولیٰ کے کئی معنی ہیں مثلاً (1) پروردگار (2) مالک آقا (3) مخلص دوست ساتھی رفیق(4) ولی (5)غلام اور آزاد کردہ غلام وغیرہ۔
یہاں مولیٰ سے مراد ولی محبوب اور مخلص ہے یعنی جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ولی اور محبوب سمجھتا ہے وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اپنا ولی اور محبوب سمجھتا ہے۔
حنفیوں کے ایک امام طحاوی نے فرمایا:
"الموليٰ هاهنا هو الولي....."
یہاں مولیٰ سے مراد ولی ہے ۔(مشکل الآثار طبعہ جدید 5/25ح1770)
قاضی عیاض المالکی نے کہا: "مولاه اي وليه" یعنی اس سے ولی مراد ہے۔(مشارق الانوار2/490)
ولی بھی مخلص دوست اور محبوب کو کہتے ہیں۔(دیکھئے القاموس الوحید ص1901)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا"
"تم ہمارے بھائی اور مولیٰ ہو۔"(صحیح بخاری2699)
جس طرح سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مولیٰ ہیں اسی طرح سیدنا علی بھی مولیٰ ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں مولیٰ سے پروردگار ،مشکل کشا، حاجت روا،یا وصی و خلیفہ مراد لینا بے دلیل اور باطل ہے۔اگر مولیٰ سے یہاں خلیفہ یا وصی مراد ہوتا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے صراحتاً استدلال کرتے مگر ان سے ایسا کوئی استدلال ثابت نہیں لہٰذا شیعہ کا استدلال باطل ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی، بلکہ صحیح بخاری میں ہے کہ محمد بن الحنیفہ یعنی محمد بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون بہتر ہے؟ انھوں نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔بیٹے نے پوچھا:ان کے بعد کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہتر ہیں۔(باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب فضل ابی بکرح 3671)(27/نو مبر 2010ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب