السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم شیخ زبیر علی زئی حافظ اللہ (رحمہ اللہ)آپ کو چند روایات ارسال کر رہا ہوں جو عام طور پر خطباء اور واعظین سے سنی جاتی ہیں براہ مہربانی اپنے انتہائی قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر اصول حدیث اور اسماء الرجال کی روشنی میں ان روایات و آثار کی تحقیق پیش کردیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں برکت فرمائے اور آپ کو تمام جہانوں کی بھلائی عطا فرمائے ، حاسدوں کے حسد اور مخالفین کے شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے آمین۔(ابو انس محمدی انصاری محلہ حیدر آباد سندھ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔"لدخل مصلياتهن الجنة""تو نمازی عورتوں کا جنت کے سواکوئی ٹھکانہ نہیں"
تجزیہ:اسے طبرانی (المعجم الاوسط 7/179)حاکم (المستدرک 4/191۔192)اور ابن ماجہ (2013)نے روایت کیا ہے:
اسے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف قراردیا ہے:
دیکھئے سنن ابن ماجہ (ص348طبع مکتبۃ المعارف )
ہمارے نزدیک اس کی وجہ ضعف یہ ہے کہ سالم بن ابی الجعد اور سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مجہول واسطہ ہے (دیکھئے المستدرک 4/174ح7332)
یہ عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ مجہول کی منفرد و خبر ضعیف و مردود ہوتی ہے
یاد رہے کہ مرد ہوں یا عورتیں جنت میں جانے کے لیے نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ عقائد صحیحہ کفرو شرک سے براءت اور اعمال صالحہ وغیرہ کا ہونا ضروری ہے:
2۔سورۃ النساء کی آیت نمبر60کی تفسیر میں بعض مفسرین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہایک یہودی اور منافق ایک تنازعہ کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرواتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ صادر فرما دیا جو اس نام نہاد مسلمان کے خلاف تھا اس نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فیصلہ کروانا چاہا ۔چنانچہ وہ دونوں ان کی خدمت میں پہنچ گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرما چکے ہیں تو شدید غضب کے عالم میں تلوار نکال لائے منافق کی گردن پہ یہ کہہ کروار کیا :
"من لَمْ يرض بقضاء اللَّه- عَزَّ وَجَلّ- وقضاء رسوله- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فهذا قضاء عمر رضي الله عنه"
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے راضی نہیں تو عمر اس کا فیصلہ تلوارسے کرتا ہے۔"
تجزیہ:یہ قصہ درج ذیل سندوں سے مروی ہے:
1۔ "الكلبي عن ابي صالح عن ابن عباس رضي الله عنه"
(تفسیر الثعلبی 3/337اسباب النزول للواحدی ص133)
اس میں محمد بن السائب الکلبی کذاب ہے اور کلبی تک سند نامعلوم ہے:
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں شاگردوں سلیم الہلالی اور محمد بن موسیٰ آل نصر نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے: "فهو اسناد مكذوب مصنوع"پس یہ سند جھوٹی من گھڑت ہے۔(الاستیعاب فی بیان الاسباب 1/424)
2۔ "عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ،(مدلس) عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ رحمة الله عليه"
(ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر2/318)
یہ روایت مرسل یعنی منقطع ہے:
3۔ "عتبة بن ضمرة عن ابيه"(تفسیر ابن دحیم بحوالہ تفسیر ابن کثیر ایضاً)
یہ سند منقطع ہے۔ اس کے راوی ضمرہ بن حبیب بن صہیب الزبیدی الشامی الحمصی کی سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملاقات ثابت نہیں ہے۔(دیکھئے تفسیر ابن کثیر بتحقیقی 1/734مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ)
"أيوب بن مدرك عن مكحول رحمة الله عليه"
(نوادر الاصول 2/22۔227)ح267)
اس کا راوی ایوب بن مدرک کذاب ہے:
(دیکھئے سوالات ابن الجنید 293لسان المیزان 1/488۔489)
تنبیہ:حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (5/38نسخہ دارطیبہ 6/168)میں کلبی کذاب کی سند کو"وان كان ضعيفاً"کہہ کر مجاہد تابعی سے اس کا ایک شاہد پیش کیا ہے۔
اس مرسل یعنی ضعیف شاہد میں منافق کے قتل کا نام و نشان تک نہیں لہٰذا یہ روایت کس طرح شاہد بن سکتی ہے؟!درج بالا بحث سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہی ہے۔
3۔"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
"الصائم في عبادة الله ، وإن كان نائماً على فراشه ، ما لم يغتب مسلماً"
یعنی روزہ دار مسلسل حالت عبادت میں ہے جب تک کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے یا اسے تکلیف نہ پہنچائے۔"(خطبات رحمانی ص395)
تجزیہ:اس روایت کے بارے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
" منكر...وهذا اسناد ضعيف جداً"
منکر ۔اور یہ سند سخت ضعیف ہے۔(السلسلۃ الضعیفۃ 3/311ح1829)
4۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلاثَ خَنَادِقَ أَبَعْدَ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ "
یعنی جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں تیار کرادے گا ہر خندق کی چوڑائی مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی۔"(خطبات رحمانی ص399۔400)
تجزیہ: یہ روایت بشر بن سلم الجبلی منکر الحدیث کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔اس بارے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا مفصل کلام السلسلۃ الضعیفۃ (ج11ص566۔569)میں ہے انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس روایت کی بعض سندوں میں "وَحُرْمَةِ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ" کے الفاظ بھی ہیں جنھیں البانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حلب بغیر اللہ اور شرک کہا ہے۔
خطباء اورواعظ حضرات کو ایسی ضعیف و مردود روایت کو عوام کے سامنے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے شرک کا "اثبات"ہو رہا ہے۔
5۔"اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی:
"أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِك الّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظّلُمَاتُ"
اے اللہ!تیرے چہرے کے نور کی پناہ طلب کرتا ہوں ۔ تیرا نور جس نے تاریکیوں کو منور کر دیا۔"
تجزیہ:دیکھئے تفسیر ابن کثیر بتحقیق عبدالرزاق المہدی 4/549)
یہ روایت ابن اسحاق (امام المغازی )کی معصلات (منقطع روایات )میں سے ہے، یعنی ضعیف ہے اس روایت کی دوسری سند بھی ہے جس کے بارے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وهذا إسناد ضعيف رجاله ثقات، وعلته عنعنة ابن إسحاق عند الجميع؛ وهو مدلس " (السلسلۃ الضعفیۃ 6/487ح2933)
6۔"ایک صحابی نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جب جبرائیل امین علیہ السلام آتے ہیں تو کیسے آتے ہیں؟اس وقت کیفیت کیسی ہوتی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چاہے دن ہو یا رات ہو۔ جب وہ آتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے آسمان پر سورج چمک رہا ہے۔"
تجزیہ : یہ بے سند روایت ہے جس کا کوئی حوالہ ہمیں نہیں ملا: واللہ اعلم۔
7۔ "علماء سلف میں سے کسی کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا کہ فلاں شخص نے تمھاری یہ غیبت کی فلاں شخص نے تمھارے بارے میں یہ غلط الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انھوں نے کہا "أَمَا وَجَدَ الشَّيْطَانُ بَرِيدًا غَيْرَكَ ؟"
شیطان کو تیرے علاوہ کوئی ڈاکیا نہیں ملا تو شیطان کا ڈاکیا بن کر آگیا۔"(خطبات رحمانی ص328)
تجزیہ:یہ قول تاریخ دمشق (63/389)بحوالہ ابن ابی الدنیا)اور الاشراف فی مناقب الاشراف لابن ابی الدنیا(98)میں"محمد بن یحییٰ المروزی قال رجل لوحب بن منبہ" کی سند سے مروی ہے۔
محمد بن یحییٰ بن سلیمان المروزی البغدادی 287ھ میں فوت ہوئے اور امام وہب بن منبہ 120ھ سے پہلے فوت ہو گئے تھے یعنی تقریباً 170 سال پہلے فوت ہوئے۔
ثابت ہوا کہ یہ روایت سخت منقطع و مردود ہے:
8۔ "نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم – محاكاة"
"کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہجے میں نقلیں اتارنے سے منع کیا۔"
تجزیہ :یہ روایت مجھے کسی کتاب میں نہیں ملی۔ واللہ اعلم ۔
اس روایت کا اصل حوالہ پیش کرنا خطباء اور واعظین کی ذمہ داری ہے۔
9۔ "سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔
"لو أن فقيها كان على رأس جبل لكان هو الجماعة"
اگر ایک فقیہ و عالم دین پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہو تو وہی جماعت ہے اس کے پاس جاؤ اس سے استفادہ کرو، تمھارے امراض مشاکل اور فتنوں کا علاج پیش کرے گا، اور تم کو کتاب و سنت کے نور کے ذرریعے حق پر قائم رکھے گا۔(خطبات رحمانی ص179)
تجزیہ: یہ قول ہمارے علم کے مطابق امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے باسند صحیح ہر گز ثابت نہیں اور شرح السنۃ للبغوی (1/279)میں یہ قول بے سند و بے حوالہ ہی لکھا ہوا ہے، لہٰذا علمی میدان میں اس بے سند حوالے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
10۔ حدیث ہے کہ:
"أُحِلَّتْ لَكُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ"
ہمارے لیے دو مردار حلال ہیں۔ ایک مچھلی ،دوسرا ٹڈی "
تجزیہ:سنن ابن ماجہ (3218)کی یہ روایت عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم عن ابیہ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے اور السنن الکبری للبیہقی (1/ 254) میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔
یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقوف قول ہے۔(السنن الکبری للبیہقی 1/254وسندہ صحیح)
اگر چہ مفہوم کے لحاظ سے یہ حکماً مرفوع ہے لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے صراحتاً "حدیث رسول "قراردینا صحیح نہیں۔
" علامہ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ والی ریاست بھوپال ،ریاست بھوپال کی والیہ بیگم شاہ جہان ان کے عقد میں آگئی۔ اس نے ان کے تقویٰ سے ان کے علم سے ان کےزہد سے متاثر ہو کر ان سے نکاح کر لیا۔ لیکن وہ پردہ نہیں کرتی تھی اور روزانہ عصر کے بعد ان کا معمول تھا اپنے شوہر علامہ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ باہر سیر کو نکلتی تھی۔
ایک وکٹوریہ پر بیٹھ کر بے پردہ نکلتی تھی۔ ان کی نصیحت قبول نہ کرتی۔ نواب صاحب ایک دن درس حدیث دے رہے تھے۔ یہ حدیث آئی تین قسم کے افراد کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ شاگردوں نے سوال کیا کہ دیوث کون ہے کہا کہ ابھی نہیں بتاؤں گا جب شام کو بیگم کے ساتھ باہر نکلوں گا تو تم راستہ میں آجانا۔ راستہ روک کر اس حدیث کا معنی سمجھنا۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق شام کو نکلے طلبہ باہر کھڑے ہیں انتظار میں راستہ روکا۔
اور کہا کہ استاد صاحب ہمیں ایک حدیث سمجھائیے کہ یہ تین قسم کے افراد جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھئے گا ۔ ان میں سے ایک دیوث بھی ہے۔ دیوث کا معنی کیا ہے۔ فرمایا کہ دیوث میں ہوں فرمایا کہ دیوث مجھے دیکھ لو میں دیوث ہوں۔ بیگم بھی ان کی بڑی عالمہ فاضلہ تھی۔ بات کو سمجھ گئی فرمایا کہ ابھی گھر واپس پلٹیے۔برقعے کا انتظام کیا۔ پردہ کا انتظام کیا۔" (خطبات رحمانی 345۔346)
یہ مذکورہ سارا بیان جھوٹ ،بہتان اور افتراء ہے۔ علامہ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی نیک سیرت زوجہ نواب شاہجہان بیگم سے اس قسم کا کوئی قصہ ہر گز ثابت نہیں اور یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ قصہ گونے یہ قصہ کہاں سے سنایا پڑھا ہے؟"
علامہ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سید علی حسن خان نے اپنی والدہ کے بارے میں لکھا ہے۔"اس کی حقیقت یہ ہے کہ رئیسہ عالیہ کا پردہ بقاعدہ شرعی نکاح اول کے زمانہ ہی سے قائم تھا۔ "الخ(مآثر صدیقی حصہ سوم ص173)
اس کے بعد کی کچھ عبارت غیر واضح سی معلوم ہوتی ہے اور نکاح اول سے مراد ملکہ شاہ جہان بیگم نواب باقی محمد خان سے نکاح ہے جو علامہ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے ہوا تھا۔
ایسی دیندار و نیکو کار بی بی کے بارے میں یہ پرو پیگنڈا کرنا کہ وہ بے پردہ نکلتی تھی اور اس کا عالم فاضل شوہر دیوث تھا بہت بڑا بہتان ہے( والعیاذ باللہ)
آخر میں خطباء، علماء اور طلباء سے گزارش ہے کہ جو بات بھی بیان کریں مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد ہی کریں کیونکہ یہ بہت نازک مسئلہ ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَقيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق
یعنی بندہ اپنی زبان سے جو بات بھی نکالتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے)موجود ہوتا ہے۔(ق۔18)وما علینا الاالبلاغ ۔(20/جون 2013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب