السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم شیخ صاحب !صحیح مسلم کی ایک روایت کی صحت کے بارے میں بعض لوگوں کو کچھ اشکالات ہیں،جو میں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں:
محدث دیار سندھ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر "بدیع التفاسیر جلد اول صفحہ 134"(جس کی فوٹو کا پی بھی ساتھ منسلک ہے)میں نےلکھا ہے کہ" صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے وہ سب( نماز کو)الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔(صحیح مسلم النووی ج1ص172)
اس کی سند اوزاعی عن قتادہ انہ کتب الیہ یخبرہ عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے یعنی اوزعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ روایت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لکھ کر بھیجی ہے۔اور قتادہ مادرزاد اندھے ہیں۔(تہذیب 8/351)یعنی یہ روایت انھوں نے خود نہیں لکھی بلکہ کسی کاتب سے لکھوائی ہو گی۔
وہ کاتب مجہول ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "النکت ص294"قلمی(مطبوع 2/755۔756)میں بھی لکھا ہے۔ لہٰذا اس روایت میں ملاوٹ کا بڑا اندیشہ ہے۔جس نے یہ روایت لکھ کر اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچائی ہے وہ نامعلوم شخص ہے گویا قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان واسطہ مجہول ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح قتادہ مدلس تھے اور یہاں سماع کی تصریح بھی نہیں ہے جو اس روایت کے ضعیف ہونے کا دوسرا سبب ہے۔(بدیع التفاسیر جلد اول صفحہ 134)
شیخ صاحب !یہاں یہ بات یادرہے کہ محترم و مکرم بدیع الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بسم اللہ بالجہر کے قائل و فاعل تھے اور مذکورہ روایت میں چونکہ بسم اللہ کو سراً پڑھنے کی طرف اشارہ ہے، غالباً اسی بحث میں شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی پر کلام کیا ہے۔
اسی صفحہ 134پر مزید بحث کرتے ہوئے محترم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بالکل نہیں پڑھی نہ آہستہ سے نہ بلند آواز سے اور آہستہ پڑھنے والوں کے لیے اس میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
(اور پھر مذکورہ روایت سے آگے صحیح مسلم کی دوسری روایت نقل کی ہے جس میں وضاحت ہے کہ"اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا)
محترم و محبوب شیخ صاحب! اس بحث کو لے کر ہمارے سندھ کے کچھ علماء نے صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث کو ضعیف تسلیم کر لیا ہے اور موبائل پر میسجز(Messages)کے ذریعے سے اس کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔
پھر جب ہم نے اپنے دوستوں کے ذریعے سے ان علماء کی توجہ صحیح بخاری ومسلم کی صحت پر ہونے والے اجماع کی طرف دلوائی تو انھوں نے اس کا بھی انکار کر دیا کہ دونوں کتابوں پر اجماع ہوا ہے،یعنی ان کے بقول اجماع نہیں ہے۔(وکیل ولی قاضی ،حیدرآباد سندھ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم کی اس حدیث کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے:
امام عبد الرحمٰن بن عمر والاوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
(امام )قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث لکھوا کر مجھے بھیجی :انھیں(سیدنا)انس بن مالک( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نےحدیث بیان کی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے پیچھے نماز پڑھی ۔ وہ الحمد للہ رب العالمین سے نماز شروع کرتے تھے ،نہ قرآءت کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے تھے اور نہ آخر میں پڑھتے تھے:
(صحیح مسلم :52/399ترقیم دارالسلام :892مسند احمد223ح13337)
اس حدیث کی سند پر استاذ محترم رحمۃ اللہ علیہ نے دواعتراض کیے ہیں:
اول:اس روایت کا کاتب نامعلوم ہے:
دوم:قتادہ رحمۃ اللہ علیہ مدلس ہیں اور یہاں سماع کی تصریح نہیں۔
پہلے اعتراض کے دو جواب ہیں۔
اول:اس روایت کے صحیح لذاتہ شواہد و متابعات موجود ہیں ، جیسا کہ ان شاء اللہ آگے آرہا ہے، لہٰذا کاتب کا نامعلوم ہونا یہاں بالکل مضر نہیں:
دوم:دنیا کا عام دستور ہے کہ نابینا اشخاص اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو خطوط و تحریرات بھیجتے رہتے ہیں اور عام طور پر(صریح دلیل کی تخصیص نہ ہونے کی صورت میں، یعنی کاتب کے مجروح ثابت ہونے کی صریح دلیل کے بغیر)اس خط کتابت پر اعتماد کیا جاتا ہے:
یہ مکاتبت کی قسم میں سے ہے اور اصول حدیث میں مقرر ہے کہ مکاتبت سے روایت جائز ہے۔
دوسرے اعتراض کا یہی جواب کافی ہے کہ مسند احمد میں اسی روایت کی اسی سند میں سماع کی تصریح موجود ہے۔(ج3ص223۔224کتب الی قتادہ حدثنی انس عن بن مالک)
نیز صحیحین میں تمام مدلسین کی تمام معنعن روایات سماع اور متابعات معتبرہ وشواہد صحیحہ پر محمول ہیں۔ اب اس روایت کے بعض شواہد و متابعات پیش خدمت ہیں:
1۔صحیح مسلم اور بہت سی کتابوں میں یہ حدیث ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا۔انھوں نے انس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے بیان کیا:"
"صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقْرَأُ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)"
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے ساتھ (یعنی ان کی اقتدا میں )نماز پڑھی تو میں نے کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا:
(صحیح مسلم:399،دارالسلام :890،مسند احمد 3/117ح12810،صحیح ابن خزیمہ:494صحیح ابی عوانہ 2/122ح 1311)
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور کوئی اعتراض کرے کہ قتادہ مدلس ہیں تو اس کے تین جوابات ہیں:
اول:امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت اپنے استاد سے سنی تھی۔ جیسا کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:تین آدمیوں اعمش رحمۃ اللہ علیہ ، اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ، اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس کے لیے میں تمھارے لیے کافی ہوں۔
(جزء مسالۃ التسمیہ لا بن ظاہر ص47وسندہ صحیح)
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے منہ کو دیکھتا رہتا تھا جب آپ کہتے میں نے سنا ہے یا فلاں نے ہمیں حدیث بیان کی ، تو میں اسے یاد کر لیتا تھا اور جب کہتے فلاں نے حدیث بیان کی، تو میں اسے چھوڑ دیتا تھا ۔(تقدمۃ الجرح والتعدیل ص169وسندہ صحیح ،تحقیقی مقالات1/261)
یہ ایسا (عام)مسئلہ ہے کہ تدلیس اور مدلسین سے باخبر تقریباً اکثر طلباء و علماء کو معلوم ہے۔
دوم:اسی روایت میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے سماع کی تصریح موجود ہے جیسا کہ فقرہ نمبر2 کے تحت آرہا ہے۔
سوم:صحیحین میں مدلسین کی تمام معنعن روایات سماع ، متابعات یا شواہد صحیحہ پر محمول ہیں لہٰذا ان روایات پر تدلیس کا اعتراض غلط ہے:
2۔ثقہ و صدوق راوی علی بن الجعد نے کہا:
"قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ أنا شُعْبَةُ، وَشَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَجْهَرُ(بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)"
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کےپیچھے نماز پڑھی تو میں نےان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً پڑھتے ہوئے نہیں سنا:
(مسند علی بن جعد :922وللفظ لہ، دوسرا نسخہ:953الترمذی 1/314ح1186
وعندہ شعبۃ وسفیان!)
اس روایت کی سند صحیح ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس روایت میں امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی متابعات کرنے والے شیبان بن عبدالرحمٰن اسمیمی ثقہ ثبت صاحب کتاب ہیں:
سنن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے مطبوعہ نسخے میں سفیان کا لفظ تصحیف ہے اور شیبان کی ترجیح کے لیے دیکھئے صحیح ابن حبان(الاحسان: 1796،دوسرا نسخہ:1799)المخلصیات
(2/101ح1126)شرح معانی الآثار للطحاوی(1/202،باب قرآءۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم فی الصلوۃ )مسالۃ التسمیہ(ص24اور معجم ابن عساکر (1/31ح22) وغیرہ)
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کو راویوں کی ایک جماعت نے مختلف الفاظ کے ساتھ اس مفہوم میں بیان کیا ہے:
1۔محمد بن جعفر (صحیح مسلم)
2۔علی بن الجعد(حوالہ اس فقرے کے شروع میں گزر چکا ہے۔)
3۔وکیع بن الجراح (مسند احمد 3/179ح 1284)
4۔حجاج بن محمد (مسند احمد3/177)
5۔عبید اللہ بن موسیٰ (المثقیٰ لابن الجارود :183سنن الدارقطنی 1/315)
6۔بدل بن المحبر(السنن الکبری للبیہقی 2/51)
7۔ابو داؤد الطیالسی (صحیح مسلم ،دارالسلام :891)
8۔عقبہ بن خالد (المجتبیٰ للنسائی:908)
9۔اسود بن عامر(سنن دارقطنی 1/315ح1189)
10۔زید بن الحباب (سنن دارقطنی 1/315ح1190) وغیرہم:
اور شیبان بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ (ثقہ صاحب کتاب )ان کے متابع ہیں:
اس صحیح حدیث سے صاف ثابت ہےکہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی تھی۔اور حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں کو زبردست پھکی دی ہے، جو کہتے تھے قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں سنی تھی۔(دیکھئے الاحسان قبل ح،1796 ،دوسرا نسخہ 1799)
3۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی حدیث کو سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔(صحیح مسلم دارالسلام :893،جزء القرآءۃ للبخاری :120)
یعنی قتادہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کے ساتھ منفرد نہیں نیز اس حدیث کے کئی شواہد بھی موجود ہیں، مثلاً:
1۔عن ابی نعامہ الحنفی عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مسند احمد 3/216ح1325،السنن الکبری للبیہقی 2/52)
اس سند میں سفیان ثوری (طبقہ ثانیہ کے!!)مدلس ہیں لہٰذا یہ سند صرف اس وجہ سے ضعیف ہے۔
2۔منصور بن زاذان عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المجتبیٰ للنسائی 2/134ح907)
اس کی سند منقطع ہے، منصور نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا:
3۔عن الحسن البصری عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح ابن خزیمہ:497)
اس کی سند میں سوید بن عبدالعزیز ضعیف اور حسن بصری مدلس ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
4۔عن ثابت عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح ابن خزیمہ:497)
اس روایت میں اعمش(طبقہ ثانیہ کے!!)مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے:
یہ حدیث امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند کے ساتھ بالکل صحیح ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے شروع میں جہراً بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہ پڑھنا بھی جائز ہے، یعنی سراً پڑھنا بالکل صحیح ہے اور دوسرے دلائل کی روسے بعض اوقات بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً پڑھنا بھی جائز ہے۔(دیکھئے میری کتاب ہدیۃ المسلمین ص37۔38۔ح13)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" بالکل نہیں پڑھی نہ آہستہ سے نہ بلند آواز سے"
یہ اعتراض دو وجہ سے غلط ہے:
1۔حدیث میں صراحت ہے کہ:
"صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَجْهَرُ(بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)"
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کےپیچھے نماز پڑھی تو میں نےان میں سے کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً پڑھتے ہوئے نہیں سنا: (دیکھئے فقرہ نمبر2)
چونکہ حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ اس حدیث:
"لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فِي أَوَّلِ قِرَاءَةٍ ، وَلَا فِي آخِرِهَا"
سے مراد ہے کہ وہ قرآءت کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (جہراً)ذکر نہیں کرتے تھے اور نہ آخر میں( جہراً)ذکر کرتے تھے۔
2۔محدثین کرام جو فہم حدیث کے سب سے زیادہ ماہر تھے انھوں نے بھی اس حدیث سے عدم بسم اللہ کی بجائے عدم جہر مراد لیا ہے۔ مثلاً:
حافظ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر درج ذیل باب باندھا ہے:
"باب من قال لا يجهر بها"
"باب جو کہتا ہے کہ اسے جہراً نہیں پڑھنا چاہئے۔(السنن الکبری2/50)
نیز ان سے پہلے امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کو صراحت سے بیان کیا ہے۔
"ذكر الدليل على أنَّ أنسًا إنما أراد بقوله: «لم أسمع أحدًا منهم يقرأ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ أي: لم أسمع أحدًا منهم يقرأ جهرًا ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾، وأنهم كانوا يُسِرُّون ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ في الصلاة، لا كما توهَّم مَن لم يشتغل بطلب العلم مِن مظانِّه وطلبَ الرئاسةَ قبل تعلُّم العلم"
باب اس بات کی دلیل کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد میں نے کسی کو ایک بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا:سے مراد صرف یہ ہے کہ میں نے کسی ایک کو بھی جہراً بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا:اور بے شک وہ نماز میں سراً بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے تھے نہ کہ وہ بات جو ایسا شخص کہتا ہے جس نے صحیح مقامات سے علم حاصل نہیں کیا اور علم کے سیکھنے سے پہلے ہی بڑا بننے لگا۔(صحیح ابن خزیمہ ج1ص249قبل ح495)
ہمارا یہ عقیدہ ایمان منہج اور نصب العین ہے کہ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی تمام مرفوع مسند متصل احادیث بالکل صحیح ہیں اور ان میں سے ایک بھی ضعیف نہیں۔ ہمارے علم میں ہے کہ بعض علماء نے اس بات سے اختلاف کیا ہے لیکن نزدیک ان کا قول مرجوح اور غیر صحیح ہے۔
وما علینا الاالبلاغ(27/شعبان 1433ھ)بمطابق 18/جولائی 2012ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب