سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) خلع والی عورت کی عدت ایک مہینہ ہے

  • 21305
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 3593

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو عورت اپنے شوہر سے خلع لے، اس عورت کی عدت کتنی ہے؟ کیا عام عورتوں کی طرح وہ نکاح ختم ہونے کے بعد تین حیض یا وضع حمل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؟ دلیل اور تحقیق سے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی بیوی (قول مشہور میں حبیبہ بنت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں حکم دیا کہ وہ ایک حیض کی عدت گزاریں۔

روایت کی تخریج کے لیے دیکھئے سنن الترمذی (1185م وقال "حسن غریب")سنن ابی داؤد (2229)اور المستدرک للحاکم (2/206ح 2825وصححہ الحاکم دوافقہ الذہبی فی تلخیصہ )

اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے امام عبدالرزاق کا مرسلاً بیان کرنا علت قاوحہ (وجہ ضعف)نہیں بلکہ زیادت ثقہ کی مقبولیت کے اصول سے یہ روایت مرسلا اور متصلا دونوں طرح صحیح ہے۔

سنن الدار قطنی (ج3ص255ح3589)میں صحیح سند کے ساتھ ہشام بن یوسف کی بیان کردہ اس روایت میں:

 "فجعل النبي صلى الله عليه وسلم عدتها حيضة"

 کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی عدت ڈیڑھ حیض مقرر فرمائی۔ اس کی سند بھی حسن لذاتہ ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ خلع لینے والی عورت کی عدت ایک مہینہ ہے۔

ربیع بنت معوذ بن عفراء  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(سیدنا عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے میں)خلع لیا۔ پھر انھوں نے (سیدنا) عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے عدت کے بارے میں پوچھا تو آپ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے فرمایا : تم پر کوئی عدت نہیں ہے الایہ کہ وہ (شوہر)تمھارے پاس تھا اور تم نے تازہ تازہ خلع لیا ہے تو ایک حیض مدت گزارے گی۔(سیدنا )عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:میں اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلے کی اتباع کرتا ہوں جو آپ نے مریم المغالیہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے بارےمیں فرمایاتھا۔(سنن النسائی ج6ص186۔187ح3528وسندہ حسن واللفظ سنن ابن ماجہ :2058)وقال الحافظ ابن حجر فتح الباری 9/99تحت ح5273واسنادہ جد")

مریم المغالیہ سے مراد ثابت بن قیس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی وہ بیوی ہے جس نے ان سے خلع لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔دیکھئے الاصابہ (جلد واحد ص1766)

عین ممکن ہے کہ المغالیہ سے مراد حبیبہ بنت سہل کے علاوہ کوئی اور ہو۔ واللہ اعلم سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ربیع (بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )نے اپنے شوہر سے خلع لیا پھر اس کا چچا (سیدنا ) عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس گیا تو انھوں نے فرمایا:

وہ ایک حیض کی عدت گزارے گی۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پہلے یہ فتوی دیتے تھے کہ وہ تین حیض کی عدت گزارے گی۔ جب سیدنا عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ فتوی دیا تو پھر وہ اسی کے مطابق فتوی دیتے تھے اور فرماتے تھے وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں اور سب سے زیادہ علم والے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج5ص114ح1845وسندہ صحیح)

اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے سابقہ فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔ امام نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے فرمایا:

خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج5ص114ح18455وسندہ صحیح)

اس مسئلے میں حنفی وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ خلع والی عورت مطلقہ کی طرح تین مہینے یا وضع حمل کی عدت گزارے گی لیکن درج بالا حدیث خلیفہ راشد کے فیصلے اور صحابی رسول کے فتوے کی وجہ سے راجح یہی ہے کہ وہ ایک مہینہ عدت گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔(7/نومبر2009ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نکاح و طلاق کے  مسائل-صفحہ171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ