السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام شرع دین متین اس مسئلے میں کہ اگر کوئی صاحب اپنے نکاح کے وقت مہر میں مبلغ بیس ہزار روپے دینا چاہتا ہے اور لڑکی والے ساتھ یہ شرط رکھیں کہ شادی کے بعد جب بھی اللہ رب العالمین آپ کو استطاعت دے تو لڑکی کوپانچ تولہ سونا بنا کر دیں گے۔ کیا یہ شرط ازروئے قرآن و سنت صحیح ہے یا غلط ہے؟مفصل جواب سے مطلع فرمائیں۔(محمد نسیم سلفی پشاور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ہے کہ مدین والے(نیک شخص)نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
﴿قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ﴾
"میں چاہتا ہوں کہ دوبچیوں میں سے ایک کا نکاح تمھارے ساتھ کردوں۔بشرطیکہ تم آٹھ سال میری خدمت کرو۔(القصص:27)
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ لڑکی کے ولی کو نکاح کی شرائط کا اختیار حاصل ہے۔
نیز ارشاد بار تعالیٰ ہے:
﴿وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما تَرٰضَيتُم بِهِ مِن بَعدِ الفَريضَةِ ... ﴿٢٤﴾... سورةالنساء
"اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جس پر تم مقرر کئےہوئے حق مہر کے بعد باہم راضی ہو جاو۔"(النساء24)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج"
"تم پر یہ ضروری ہے کہ وہ شرطیں پوری کرو۔ جن کے ساتھ تم نے نکاح کئے ہیں۔"(صحیح بخاری 5151باب الشروط فی النکاح)
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ نکاح میں جائز شرطیں قائم کرنا جائز ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تبویب بھی اسی پر دلالت کرتی ہے۔سوال۔ مذکور کی شرط میرے علم کے مطابق نہ کسی آیت کے خلاف ہے اور نہ کسی حدیث کے خلاف ہے لہٰذا قرآن و حدیث کی روسے بالکل جائز ہے۔ یہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ شادی کرنے والے مرد یا اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو یہ شرط منظور ہے یا نہیں؟ اور اگر منظور نہیں تو ہو سکتا ہے کہ نکاح ہی رہ جائے ۔ بہتر یہ ہے کہ فریقین آپس میں صلح صفائی سے معاملہ طے کر لیں اور اسی میں خیر ہے۔وما علینا الاالبلاغ۔(4/اپریل2011ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب