سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) صرف ہفتے کے دن کے نفلی روزے کا حکم؟

  • 21297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1148

سوال

(44) صرف ہفتے کے دن کے نفلی روزے کا حکم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صرف ہفتے والے دن کے نفلی روزے کا کیاحکم؟(نوید شوکت دربی برطانیہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بہن صماء المازنیہ وغیرہما سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو۔ سوائے اس دن کے جس میں تم پر روزہ فرض ہواور اگر تمھیں صرف انگور کی ٹہنی کا چھلکا یا کسی درخت کی لکڑی ہی( کھانے کے لیے)ملے تو اسےچبالو۔"

(سنن ابی داؤد :2421سنن ترمذی744وقال "حسن" سنن ابن ماجہ 1726)

اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے ابن خزیمہ(2164) ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  (بسند آخر 3606)حاکم (1/435) اور ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قراردیا ہے لیکن امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"ھذا الحدیث منسوخ " یہ حدیث منسوخ ہے۔

کئی علماء نے اس دعوی نسخ کا انکار کیا ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وفات سے پہلے "يوم السبت او يوم الأحد" ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھتے تھے۔اور آپ نے فرمایا:"یہ مشرکین (یہود و نصاریٰ ) کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔"(صحیح ابن خزیمہ 2167صحیح ابن حبان 3607۔3516)

اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  ،حاکم رحمۃ اللہ علیہ  (1/436ح1593) اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح قراردیا ہے۔

اس حدیث کے راوی عبد اللہ بن عمر بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو درج ذیل محدثین نے ثقہ صدوق قراردیا ہے۔

1۔دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  قال ثقہ(سوالات البرقانی:85ملخصا)

2۔ ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (صحیح حدیثہ)

3۔ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  (ایضاً)

4۔حاکم رحمۃ اللہ علیہ (ایضاً)

5۔ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (ایضاً)

وقال فی الکاشف (2/114"ثقہ"

محمد بن علی  بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو درج ذیل محدثین نے ثقہ و صدوق قراردیا ہے۔

1۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ( ذکرہ الثقات)

2۔ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  قال فی الکاشف (3/73)"ثقہ"

3۔ دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ قال ثقہ (سوالات البرقانی 85ملخصاً)

4۔ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  (بتصحیح حدیثہ )

5۔ حاکم رحمۃ اللہ علیہ (ایضاً)

6۔ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  وقال صدوق (التقریب التہذیب:6170)

باقی سند بالکل صحیح ہے۔

اس حدیث کو شیخ البانی کا محمد بن عمر بن علی کہ وجہ سے ضعیف قرار دینا (الضعیفہ1099) بہت ہی عجیب و غریب اور غلط ہے۔

اس حسن لذاتہ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اتوار کے دن کا نفلی روزہ رکھنا چاہے تو اس کے لیے ہفتے کے دن کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  وابن شاہین وغیرہم نے یہی مفہوم سمجھا ہے۔

چونکہ واؤترتیب کے لیے ضروری نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص صرف ہفتہ یا صرف اتوار کا روزہ رکھنا چاہے تو بھی اس حدیث کی روسے جائز ہے۔

حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو سابق حدیث کے معارض قراردیا ہے لہذا معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ اسی دوسری بات کے قائل ہیں واللہ اعلم۔

محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی نے بھی لکھا ہے:

"وظاهرُه صوم كلٍّ على الانفراد والاجتماع"

"اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں دنوں کا انفرادی اور اجتماعی روزہ رکھنا جائز ہے۔(سبل السلام ص476۔ح683)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ" اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسند یدہ روزہ (داؤد  علیہ السلام ) کا روزہ ہے آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے۔ اور ایک دن افطار کرتے تھے۔"(صحیح بخاری 1131صحیح مسلم 1159 ملخصاً)

اس حدیث سے صرف ہفتے کے دن روزہ رکھنے کا جواز ثابت ہے اور بعض علمائے معاصرین نے بھی اس سے ایسا ہی استدلال کیا ہے۔

اس روایت میں آیا ہے کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  نے ہفتے کے دن کے بارے میں فرمایا:اس کے روزے میں کوئی حرج نہیں۔(شرح معانی الآثار للطحاوی 2/81)

اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔

1۔ طحاوی کے استاد محمد بن حمید بن ہشام کا ثقہ و صدوق ہو نا ثابت نہیں۔

2۔ عبد اللہ بن صالح کا تب اللیث سے صرف وہی روایت صحیح یا حسن ہو تی ہے جو حدیث کے ماہر ثقہ اماموں (حذاق )نے بیان کی ہو اور یہ ان روایات میں سے نہیں۔ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کے بارے میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"یہ حمصی حدیث ہے ۔(المستدرک1/436)

یہ سند محمد بن اسماعیل بن مہران النیسابوری کے اختلاط کی وجہ سے مشکوک ہے۔

تمام دلائل مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھا جائے۔ اور یہی بہتر ہے اگر کوئی شخص مخالفت یہود وغیرہ کی وجہ سے یہ روزہ رکھ لے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم۔(5/ اگست 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔روزہ، صدقۂ فطر  اور زکوٰۃ کے  مسائل-صفحہ151

محدث فتویٰ

تبصرے