السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دو سجدوں کے درمیان بائیں ہاتھ سے گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑ لیں یا ران پر رکھیں؟احناف ہاتھ ران پررکھنے کا کہتے ہیں جبکہ ہمارا(یعنی اہلحدیث) عمل گھٹنے پکڑنے کا ہے،دلیل کی نشاندہی کردیں۔(شمس الرحمٰن ۔کراچی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں کوئی صریح صحیح حدیث میرے علم میں نہیں ،تاہم دوسجدوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔(صحیح بخاری :820 صحیح مسلم:471(1057)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
"وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ "
"اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دوسجدوں کے درمیان(بیٹھتےتھے) حتیٰ کہ کہنے والا کہتا تھا:آپ بھول گئے ہیں(صحیح البخاری :821،صحیح مسلم :472(1040)
صحیح بخاری(6251) کی ایک بالکل صحیح اور محفوظ حدیث میں آیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا:
"ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعاً , ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِماً , ثُمَّ اُسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِداً, ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِساً "
"پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر،پھر سجدے سے اٹھ کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا،پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر،پھر سجدے سے اٹھ کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا۔"
ان احادیث سے دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا ثابت ہے۔
تمام صحیح العقیدہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ دو سجدوں کے درمیان دونوں رانوں پر دونوں ہاتھ رکھنے چاہئیں اور اجماع شرعی حجت ہے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں آیا ہے کہ:
"وسجد فوضع يديه حذو أذنيه ثم جلس فافترش رجله اليسرى ثم وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى ثم أشاربسبابته ووضع الإبهام على الوسطى، وقبض سائر أصابعه، ثم سجد فكانت يداه حذاء أذنيه"
"اورآپ نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ کانوں کے پاس رکھے،پھرآپ بیٹھ گئے تو بایاں پاؤں بچھایاپھر بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھا اور دائیں ذراع(بازو) اپنے دائیں ران پر رکھا،پھر شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا ودرمیانی انگلی پر انگوٹھا رکھا اور ساری انگلیاں بند کرلیں۔پھر سجدہ کیا تو آپ کے دونوں ہاتھ دونوں کانوں کے قریب(رکھے ہوئے) تھے۔(مسند احمد 4 ،317ح18858)
اس روایت کی سند میں سفیان بن سعید الثوری راوی مدلس ہیں اور سند عن سے ہے،لہذا یہ روایت اصول حدیث کی رُو سے ضعیف ہے۔جولوگ اصول حدیث کے مخالف یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہر مدلس کی عن والی روایت صحیح ہوتی ہے ،الایہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے یا سفیان ثوری مدلس کی عن والی روایت بھی صحیح ہوتی ہے تو ان لوگوں کے اصول کی رو سے یہ روایت صحیح ہے،لہذا انھیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔!
ہمارے نزدیک یہ روایت ضعیف ومردود ہی ہے اوراس باب میں اصل اعتماد اجماع پر ہے۔رہایہ مسئلہ کہ بائیں گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے یاہاتھ رکھ دینے چاہئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی صریح دلیل مجھے معلوم نہیں ،لہذا بہتر یہی ہے کہ جمہور صحیح العقیدہ مسلمانوں کے عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں رانوں یادونوں گھٹنوں پر اس حالت میں دونوں ہاتھ رکھ دیے جائیں۔واللہ اعلم۔(2/فروری 2013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب