سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) بے وضو پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ ضروری ہے

  • 21280
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1189

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غسل فرض تھا مگر بھول کر چند نمازیں بغیر غسل کے صرف وضو کرکے پڑھ لی جائیں تو کیا یاد آنے پر ان نمازوں کو  دھرایا جائےگا یا صرف استغفار کرلیا جائے؟ (اعجاز احمد،گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں کوئی صریح حدیث مجھے معلوم نہیں۔

امام عبدالرحمان بن مہدی نے فرمایا:

"قال ابن مهدي: قلت لسفيان الثوري: تعلم ان أحداً قال: يعيد ويعيدون عن حماد؟ قال: لا"

ہمیں عبداللہ بن عمر( بن حفص بن عاصم العمری) نے نافع سے حدیث بیان کی کہ ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی،پھر انھیں یادآیا کہ ہاتھ آلہ تناسئل(شرمگاہ) کو لگ گیاتھا،لہذاانھوں نے وضو کیا اور لوگوں کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

عبدالرحمان بن مہدی نے کہا:میں نے سفیان(ثوری) سے پوچھا:کیا آپ کے علم میں ہے کہ کسی نے یہ کہا ہو:لوگ نماز دوبارہ پڑھیں گے؟انھوں نے فرمایا:حماد(بن ابی سلیمان) کے علاوہ کوئی نہیں۔(سنن دارقطنی 1/365 ح1359 وسندہ حسن)

اس روایت میں عبداللہ العمری نیک،صدوق اور جمہور کےنزدیک مضعف ہونے کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں،لیکن خاص نافع سے اُن کی روایت حسن ہوتی ہے۔

امام عثمان بن سعید الدارمی نے امام یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا:نافع سے ان کی روایت کس طرح ہے؟انھوں نے فرمایا:"صالح" اچھی ہے۔

(تاریخ عثمان بن سعید الدارمی:523 تاریخ بغداد 10/20ت5135)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے العمری عن نافع والی روایت کو"ھذاحدیث  حسن" کہا۔(ح854)

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے العمری عن نافع کی سند سے ایک حدیث بیان کی۔(صحیح مسلم:2132)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابن خذیمہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے العمری عن نافع کی روایت میں شک کا اظہار کیا۔(دیکھئے جزء رفع الیدین :83صحیح ابن خذیمہ قبل ح1431،1860)

جمہور کی خاص توثیق کی وجہ سے عبداللہ العمری نافع سے روایت میں حسن الحدیث ہیں،لہذا یہ سند حسن ہے۔امام عبدالرحمان بن مہدی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 198ھ) نے فرمایا:

"وهو هذا المجتمع عليه الجنب يعيد ولا يعيدون ما أعلم فيه اختلافا"

"اور اس بات پر اجماع ہے کہ جُنبی(حالتِ جنابت میں پڑھی ہوئی نماز) دوبارہ پڑھے گا اور وہ(اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے) اپنی نمازیں نہیں دھرائیں گے،مجھے اس بارے میں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں ہے۔(سنن دارقطنی1/365ح1357 وسندہ صحیح)

یہاں اجماع سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اجماع ہے،جس کی مخالفت حماد بن ابی سلیمان (تابعی صغیر وصدوق حسن الحدیث) کے سوا کسی سے ثابت نہیں۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 2/401)

البتہ بعد میں سفیان ثوری(تبع تابعین  رحمۃ اللہ علیہ ) نے بھی وہی موقف اختیار کرلیا جو حماد کا تھا۔(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/45ح4577 وسندہ حسن)

خلاصہ یہ کہ اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے بے وضو نماز یا نمازیں پڑھ لے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ یہ نمازیں دوبارہ پڑھے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر غلطی سے بے وضو نماز پڑھنے والا امام ہوتو مقتدیوں کا کیا ہو گا؟کیا وہ اپنی نمازیں دوبارہ پڑھیں گے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جمہور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں مقتدیوں کی نماز ہوگئی انھیں یہ نمازیں دھرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[1]

بعض علماء نے اس مسئلے پر سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔(4/اپریل 2011ء)


[1] ۔سیدنا شرید القضی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے لوگوں کو حالت جنابت میں نماز پڑھا دی ، پھر انہوں نے(خود) نماز دہرائی لیکن ان(مقتدیوں) کو نماز دہرانے کاحکم نہیں دیا۔(السنن الکبریٰ 2/399،400 سنن الدارقطنی 1/364 ح1364 وسندہ  حسن)

المغنی لابن قدامہ(2/100،99) میں مذکور ہے:"اگر امام بے وضو یا جنبی حالت میں جماعت کرادے،جبکہ وہ اس سے لاعلم ہواور متقدی بھی اس کی اس کیفیت سے آگاہ نہ ہوں تو ان کی نماز صحیح ہے اور امام کی نماز باطل ہے۔اجماع صحابہ سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔"(ندیم ظہیر)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ100

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ