سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک بیٹھنا،پھر دو رکعتیں پڑھنا

  • 21278
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1732

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ "

"جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی،پھر بیٹھ کر سورج طلوع ہونے تک ذکر کرتا رہا،پھر اس نے دورکعتیں پڑھیں،اس کے لیے حج اور عمرے جتنا اجر(ثواب) ہوگا۔(صحیح الترغیب:464)

2۔دوسری حدیث:

"مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ ، ثُمَّ جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ حَتَّى تُمْكِنَهُ الصَّلاةُ ، كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ عَمْرَةٍ وَحَجَّةٍ مُتَقَبَّلَتَيْنِ"

"جس نے صبح کی نماز پڑھی  پھر اپنی مجلس میں بیٹھا رہا حتیٰ کہ نماز پر قابو ہوا(یعنی اس نے نماز پڑھی) وہ قبول شدہ حج اور عمرے کے قائم مقام ہے۔(صحیح الترغیب:468)

جو آدمی نماز فجر پڑھ کر جس جگہ اس نے نماز پڑھی ہے وہیں بیٹھا رہے،اگر وہ جگہ تبدیل کرے تو کیا اسے یہ ثواب حاصل ہوگا؟ (محمد رمضان سلفی،عارف والا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علامہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح الترغیب میں اس روایت کے بارے میں لکھا ہے:"رواہ ترمذی وقال:حدیث حسن غریب"(ج1ص 318)

سنن ترمذی(586)میں یہ روایت بحوالہ ابوظلال (ھلال بن ابی ھلال القسملی)

عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بعض اختلاف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔

ابوظلال کے بارے میں حافظ ہشیمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"وضعفه الجمهور" "جمہور نے اسے ضعیف کہا ہے"(مجمع الزوائد 10 ص384)

حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:ضعیف"(تقریب التہذیب:7349)

جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف راوی کو مقارب الحدیث کہنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایساراوی ضعیف ہی رہتا ہے،لہذا یہ  روایت ثابت نہیں،نیز اس کے تمام شواہد ضعیف ومردود ہیں اور جمع تفریق کرکے اسے حسن لغیرہ بنادینا  غلط ہے۔

2۔یہ روایت  الترغیب والترہیب اور صحیح الترغیب میں بحوالہ الاوسط للطبرانی مذکور ہے۔الاوسط للطبرانی (6/279۔280ح5598) کے راوی فضل بن موفق کے بارے میں امام ابوحاتم الرازی نے فرمایا:

"كان شيخا صالحا، ضعيف الحديث، وكان قرابة لابن عيينة، وكان يروي أحاديث موضوعة"

"وہ حدیث میں ضعیف ہے،نیک آدمی تھا،سفیان بن عیینہ کا رشتہ دار تھا،اور وہ موضوع حدیثیں بیان کرتا تھا۔(کتاب الجرح والتعدیل 7/68)

معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس کا راوی نیک ہونے کے باوجود ضعیف تھا۔موضوع روایت کو حسن لغیرہ کہہ د ینا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔

فائدہ:۔

امام ابو حاتم الرازی  رحمۃ اللہ علیہ  کے اس قول سے معلوم ہوا  کہ موضوع روایت کے لیے راوی کا کذاب ہونا شرط نہیں بلکہ(قرائن کے ساتھ) ضعیف راوی کی روایت بھی موضوع ہوسکتی ہے،بشرط یہ کہ محدثین کرام اسے موضوع قراردیں۔

مذکورہ اجروثواب والی روایات ضعیف ومردود ہیں،لہذا اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تنبیہ:۔

شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نےالسلسلۃ الصحیحہ (3403) میں روایت مذکورہ کے دو شاہد ذکر کیے ہیں:

1۔المعجم الکبیر للطبرانی (8/209ح7741)

اس میں عثمان بن عبدالرحمان بن مسلم الحرانی الطرائفی کا استاد موسیٰ بن علی(عین کی زبر کے ساتھ ،الخشنی)نا معلوم ہے اور اُس سے موسیٰ بن علی بن رباح(عین کی پیش کے ساتھ) مراد لینا بلادلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

طرائفی مذکور کا یہ طریقہ کارتھا کہ وہ مجہول لوگوں سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔

دیکھئے الکامل لابن عدی(5/1820۔1821،دوسرا نسخہ 6/295۔298)

خود طرائفی پر سات نےجرح کی ہے اور سات نے توثیق کی ہے۔واللہ اعلم

خلاصہ یہ کہ یہ سند موسیٰ بن علی(؟) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

2۔المعجم الکبیرللطبرانی(8/174ح7649)

اس کی سند میں احوص بن حکیم ہے،جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"ضعیف الحفظ۔۔وکان عابداً"(تقریب التہذیب:290)

حافظ ہشیمی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:" "وضعفه الجمهور" "جمہور نے اسے ضعیف کہا ہے"(مجمع الزوائد ج3 ص42)

ان ضعیف روایتوں کے بل بوتے پر شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے روایتِ مذکورہ کو اپنے السلسلۃ الصحیحہ میں ذکر کیا ہے۔(ج7 ص 1195 ح3403)!!

فائدہ:۔

سیدنا جابر بن سمرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  (عام طور پر) جب فجر کی نماز پڑھتے،اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے حتیٰ کہ سورج اچھی طرح طلوع ہوجاتا تھا۔(صحیح مسلم :670 دارالسلام :1526 سنن ابی داود :1294 وسندہ صحیح)

طلوع آفتاب کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے ،جیسا کہ صحیح مسلم (720،دارالسلام :1671) کی حدیث سے  ثابت ہے۔والحمدللہ (8/اپریل 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ95

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ