السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی بندہ کسی بھی گناہ کے کام کا پکارا ارادہ کرتا ہے،لیکن وہ عملی طور پر گناہ کا کام نہیں کرسکتا یاکرنے کا موقع نہیں ملتا تو کیا ایسےشخص کاگناہ اللہ کے ہاں لکھا جائے گا؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔(محمد فیاض دامانوی ،بریڈ فورڈ انگلینڈ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا:
پس جو شخص نیکی کاارادہ کرتاہے اور اس پر نیکی پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک پوری نیکی( کا ثواب) لکھ دیتا ہے اور اگر وہ نیکی کاارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں دس سے لے کر سات سوگنا یا اس سے زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
اور جو شخص بُرائی کا ارادہ کرتا ہے،لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے۔ پھر اگر وہ اس بُرائی پر عمل کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک بُرائی لکھ دی جاتی ہے۔
(صحیح بخاری :6491صحیح مسلم:131)
اس صحیح متفق علیہ حدیث قدسی سے ثابت ہوا کہ سوال مذکور میں اس شخص کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ درج نہیں ہوتا اور یاد رہے کہ بُرائی کے ارادوں سے بھی بچنا ضروری ہے ،تاکہ آدمی اس بُرائی میں کہیں مبتلا نہ ہوجائے۔
اگر کسی شخص کے دل ودماغ میں بُرائی کا ارادہ آجائے یا شیطانی وسوسے جنم لیں تو اسے فوراً توبہ واستغفار کرناچاہیے اور درج ذیل آیت پڑھنی چاہیے۔
﴿هُوَ الأَوَّلُ وَالءاخِرُ وَالظّـٰهِرُ وَالباطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿٣﴾... سورة الحديد
(الحدید:3) (دیکھئے سنن ابی داود 5110 وسندہ حسن)(9/فروری 2012ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب