سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) آیت: ((اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)) کی تفسیر

  • 21274
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2298

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال یوں ہے کہ ترمذی کی روایت 3095جس کی سند کچھ اس طرح ہے:

"حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ"

شیخ صاحب! سوال یہ ہےکہ بعض احباب اس روایت کو صحیح/حسن بتلاتے ہیں۔کیا شیخ  البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو صحیح ترمذی 3095 میں ذکر کیا ہے؟جبکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفۃ من السنن الاربعہ صفحہ 280 روایت نمبر 3095 میں غطیف کو ضعیف لکھا ہوا دیکھا ہے۔اس کے ضعف کی کیا وجوہات ہیں؟اور کیا اس روایت کے کوئی صحیح یا حسن شاہد ہیں؟

اس سلسلے میں ابوالبختری کا قول جو حسن درجے کا ہے جامع البیان العلم وفضلہ میں اس بارے میں کیا لکھا ہے۔)میں نے سنا ہے کہ روایت حسن ہے،واللہ اعلم) اوراس کی جلد نمبر اور رقم(شمار) نمبر بھی بتائیے اور کیا واقعی وہ سند حسن ہے؟اس بارے میں تفصیلاً جوابی لفافے میں جواب دیجئے ،ان شاء اللہ۔جزاک اللہ خیراً (سائل۔زعیم پشاور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آیت "اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ" کی تشریح میں دو روایات ہیں۔

1۔مرفوع:۔

سیدنا عدی بن حاتم الطائی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور میں نے سونے کی ایک صلیب گردن میں لٹکا رکھی تھی،توآپ نے فرمایا:اے عدی! اس بت کو اتار پھینکو۔اور میں نے آپ کو سورۃ التوبۃ کی آیت: "اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ" پڑھتے ہوئے سنا،آپ نے فرمایا:انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال سمجھتے اور جسے حرام قراردیتے تو یہ اُسے حرام سمجھتے تھے۔(سنن ترمذی:3095 السنن الکبریٰ للبیہقی 10/116 التاریخ الکبیر للبخاری 7/106 المعجم الکبیر للطربانی  17/92 ح218۔219 تفسیر ابن جریر 5/864ح16640۔16641 اور السلسلۃ الصحیحہ 7/861ح3293)

اس روایت کی سند میں غطیف بن اعین ضعیف راوی ہے۔

1۔دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے الضعفاء والمتروکین(430) میں ذکر  کیا۔

2۔ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے الضعفاء والمتروکین(2/247ت2686) میں ذکر  کیا۔

3۔ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے دیوان الضعفاء والمتروکین میں درج کیا۔(2/230ت3333)

4۔ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ضعیف"(تقریب التہذیب :5364)

ان کے مقابلے میں ابن حبان نے اسے کتاب الثقات(7/311) میں ذکر کیا اور امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول مختلف فیہ ہے۔کئی نسخوں میں صرف غریب کا لفظ ہے۔(دیکھئے تحفۃ الاشراف 2847ت9877 الاحکام الکبریٰ لعبد الحق الاشبیلی 4/117 اور تہذیب الکمال 6/13 وغیرہ)

بعض نسخون میں حسن غریب کا لفظ ہے۔اگر اسے ثابت مانا جائے تو یہ دوتوثیقیں ہیں جو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مرجوح ہیں ،لہذا یہ راوی ضعیف ہی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کے دو شواہد ذکر کیے ہیں:

1۔عامر بن سعد عن عدی بن حاتم(الکافی الشاف 2/264)

اس کی سند میں واقدی کذاب ہے اور واقدی تک سند نامعلوم ہے۔

2۔عطاء بن یسار عن عدی بن حاتم(ایضاً) اس کی سند نا معلوم ہے۔

بے سند روایتیں مردود ہوتی ہیں لہذا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  کا دوسری سند کے ساتھ ملا کر اسے"حسن ان شاء اللہ" قراردینا  عجوبہ ہے۔

2۔موقوف:۔

سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں نے ان احبارورہبان کی عبادت کی تھی؟تو انھوں نے فرمایا:نہیں! جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اُسے حلال سمجھتے تھے اور جب وہ کسی چیز کو اُن پر حرام قرار دیتے تو یہ اُسے حرام سمجھتے تھے۔

تفسیر عبدالرزاق(1073) تفسیر ابن جریر الطبری(5/865ح 16643) السنن الکبریٰ للبیہقی(10/116 شعب الایمان :9394 بلون آخر ،دوسرا نسخہ:8948)جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر(2/219ح949)  اور السلسلۃ الصحیحۃ(7/865)

یہ سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف  ہے۔ابوالبختری سعید بن فیروز الطائی کی سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملاقات ثابت نہیں۔حافظ علائی نے لکھا ہے:

"سعزيد بن فيروز أبو البختري الطائي كثير الإرسال عن عمر وعلي وابن مسعود وحذيفة وغيرهم رضي الله عنهم"

(جامع التحصیل ص183)

شیخ البانی نے بھی اس سند کا مرسل(یعنی منقطع) ہونا تسلیم کیا ہے۔(حوالہ مذکورہ ص 865)اور یہ معلوم ہے کہ مرسل ومنقطع روایت مردود کی ایک قسم ہے۔

تفسیر سعید بن منصور میں لکھا ہوا  ہے:

"حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: نَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي حُذَيْفَةُ: " أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} [التوبة: 31] فَقَالَ حُذَيْفَةُ: «أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يُصَلُّوا لَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا مَا أَحَلُّوا لَهُمْ مِنْ حَرَامٍ اسْتَحَلُّوهُ، وَمَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَرَامِ حَرَّمُوهُ فَتِلْكَ رُبُوبِيَّتُهُمْ" (5/245۔246)

اس روایت کی سند ابو البختری الطائی تک صحیح ہے ،لیکن سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ "لی" کالفظ کاتب یا ناسخ کی خطا ہے۔[1]اس کے علاوہ باقی تمام کتابوں میں یہ روایت سماع کی تصریح کے بغیر ہے۔اگریہ ثابت ہوجائے کہ سعید بن منصور رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ روایت اسی طرح"قالی لی"کے ساتھ بیان کی تھی تو پھر موقوف سند صحیح ہے۔واللہ اعلم۔

تنبیہ:۔

جامع بیان العلم وفضلہ(2/219ح48)میں اس مفہوم کی ایک روایت(صحیح سند کے ساتھ) ابو الاحوص سلام بن سلیم الحنفی الکوفی سے عن عطاء بن السائب عن ابی البختری کی سند کے ساتھ مروی ہے یعنی یہ صرف ابو البختری کا اپنا قول ہے۔

ابو الاحوص کا شمار عطا بن السائب کے قدیم شاگردوں میں نہیں۔(دیکھئے اختصار علوم الحدیث بحقیقی ص166) لہذا یہ مقطوع سند بھی ضعیف ہے۔واللہ اعلم

آپ نے اس تحقیق سے دیکھ لیا کہ یہ روایت ا پنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ومردود ہی ہے اور اسی بات کو انوار الصحیفہ میں اختصار پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل الفاظ کے ساتھ لکھا گیا ہے:

"غطيف :ضعيف(تق:٥٣٦٤)وللحديث شاهد موقوف عند الطبري في تفسيره(١-/٨١) وسنده ضعيف منقطع"(ص٢٨١)

اگر کوئی کہے کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے احبارورہبان کو اس طرح سے رب بنالیا کہ اللہ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت کی،جسے احبارورہبان نے حلال قراردیا تو اسے حلال سمجھا اور جسے انھوں نےحرام قراردیا تو اسے حرام سمجھا،چاہے یہ تحلیل وتحریم وحی الٰہی اور آثار انبیاء علیہ السلام  کے سراسر خلاف تھی۔(دیکھئے تفسیر ابن جریر5/863 اور تفسیر بغوی 2/285وغیرہما)

ضعیف روایات کو خوامخواہ جمع تفریق کرکے حسن لغیرہ قرار دینا متقدمین محدثین سے ہرگز ثابت نہیں اور نہ متاخرین کا اس(ضعیف+ضعیف) پر کلیتاً عمل ہے۔

اپنی مرضی کی روایات کو حسن لغیرہ بنادینا اور مخالفین کی کئی سندوں والی روایات کو ضعیف ،شاذ اور منکر قراردے کر ردکردینا دوغلی  پالیسی کے سوا کچھ نہیں۔(16/مئی 2013ء)


[1] ۔غالب گمان یہی ہے کہ یہ"قال لی  حذیفۃ" کی بجائے"قیل ناحذیفہ"ہے ،جیسا کہ جامع البیان  للطبری(5/864) میں مذکور ہے۔واللہ اعلم۔ندیم ظہیر

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ82

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ