السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق علماء اہل سنت اور صوفیاء کا فرق بیان کیجئے اور صحیح عقیدہ کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل سنت کایہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ اور صفات پر اس طرح ایمان لانا فرض ہے جس طرح قرآن ،وحدیث،اجماع اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سلف صالحین سے ثابت ہےمثلاً:
1۔اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
2۔اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
ان صفات اور تمام صفات ثابتہ پر ایمان لاناضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش اور علو سبحانہ وتعالیٰ کے دلائل کے لیے علمائے اہل سنت نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں،مثلاً حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 748ھ) کی مشہورکتاب:العلوللعلی الغفار دو جلدوں میں تحقیق کے ساتھ چھپی ہوئی ہے جس کے 1641 صفحات ہیں۔
امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا:
"نَعْرِف رَبّنَا فَوْق سَبْع سَمَاوَات عَلَى الْعَرْش اِسْتَوَى بَائِن مِنْ خَلْقه وَلَا نَقُول كما قالت الجهمية إنه ها هنا وَأَشَارَ إِلَى الْأَرْض"
"ہم اپنے رب کو جانتے ہیں،وہ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے،اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انھوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔
(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص 427 وسندہ صحیح دوسرا نسخہ ص 538 تیسرا نسخہ 2/335 ح902)
اہل سنت کے خلاف جہمیہ(ایک انتہائی خطرناک گمراہ فرقہ) اور مبتدعین ضالین مصلین کے دو عقیدے ہیں:
1۔معطلہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے،نہ سامنے ہے نہ پیچھے نہ دائیں طرف ہے نہ بائیں طرف ،یعنی وہ جہات ستہ میں سے کسی طرف نہیں!
یہ(معطلہ) لوگ کہتے ہیں:
"انه تعالى ليس في جهة"
وہ(اللہ تعالیٰ) جہات میں سے کسی جہت پر نہیں ہے۔(دیکھئے شرح المواقف ج8 ص22)
یہ تومعدوم(جس کا کوئی وجود اور ذات اصلاً نہ ہو) کی صفت اور تعریف ہے۔دیکھئے اجتماع الجیوش الاسلامیہ لابن القیم(1/180 الشاملہ)
2۔جہمیہ کہتے ہیں:اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذاتہ اور ہر مخلوق میں ہے۔معاذ اللہ۔
ان لوگوں پر سلف صالحن نے شدید رد فرمایا،بلکہ تکفیر بھی کی ہے،مثلاً حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ومقالةُ الجهميَّةِ: أنَّ الله تباركَ وتعالى في جميعِ الأمكنةِ، تعالى الله عنْ قولهم"
"جہمیہ کا قول ہے کہ اللہ ہر مکان میں ہے۔پاک ہے اللہ اُن کے قول سے۔"
(العلو للعلی الغفار ج 2 ص 970 ح352)
یہ لوگ فرقہ ضالہ مشبہہ کی ایک قسم ہیں۔ (أعاذنا الله من شرهم)
صوفیا سے عام طور پر دو گروہ مراد لیے جاتے ہیں:
1۔صحیح العقیدہ صالحین اور زہاد اُمت مثلاً حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ ،ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ اور بشر بن الحارث الحافی رحہمم اللہ یہ سب اہل سنت کے عقیدے پر تھے اورجہمیہ ،معطلہ مشبہہ اور مبتدعین کے عقائد باطلہ سے بہت دور تھے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ولا يجوز وصفه بأنه في كل مكان، بل يقال إنه في السماء على العرش"
"یہ کہناجائز نہیں کہ وہ(اللہ) ہر جگہ میں ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے وہ آسمان میں عرش پر ہے۔(الغنیۃ الطالبین طریق الحق ج 1ص 56 العلو للعنی الغفار ج2 ص 1370 فقرہ 548 طبقات الحنابلہ لابن رجب 1/296)
یاد رہے کہ غنیۃ الطالبین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے۔دیکھئے کتاب الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب(1/296) والعلو للعلی الغفار(2/1370)
عمرو بن عثمان المکی شیخ الصوفیہ نے اپنی کتاب :آداب المریدین میں کہا:
"المستوي على عرشه بعظمة جلاله دون كل مكان"
"وہ اپنی عظمت وجلالت کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے ،ہرجگہ نہیں۔(العلو للعلی الغفار 2/1225)
2۔حلولی اور ضال مضل(گمراہ) صوفیاء مثلاً حسین بن منصور الحلاج اور ابن عربی المرسی وغیرہما ان کے اور اہل سنت کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے۔مثلاً ابن عربی نےکہا:"بس توبندہ ہے اور تو رب ہے"(فصوص الحکم ص 157 توضیح الاحکام ج1 ص57)
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
کتاب مذکور فصوص الحکم کامصنف اور اس جیسے دوسرے مثلاً قونوی،تلمسانی ،ابن سبعین،ششری،ابن فارض اور ان کے پیروکاروں کا مذہب یہ ہے کہ وجود ایک ہے۔انھیں وحدت الوجود والے کہاجاتاہے اور وہ تحقیق وعرفان کا د عویٰ رکھتے ہیں اور یہ لوگ خالق کے وجود کو مخلوقات کے وجود کا عین قراردیتے ہیں۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ج 2ص 123 ۔124توضیح الاحکام ج1ص 56)
عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی(غالی صوفی) نے ایک مسافر کا کلام بطور تائید اور بطور حجت نقل کیا:"میں اپنی ہی مخلوق اور اپنا ہی خالق ہوں۔"
(انسان کامل اردومترجم 33 طبع نفیس اکیڈمی کراچی)
عبدالکریم الجیلی نے اپنی اس کتاب کے شروع میں کہا:
"پس وہی حامدہے اور وہی حمد اور وہی محمود وہ مطلق عین اُس چیز کاہے جس کا نام خلق اور حق ہے۔"(انسان کامل ص17)
حاجی امداد اللہ تھانہ بھونوی(جنھیں بعض لوگ مہاجر مکی کہتے ہیں) نے کہا:
"بندہ قبل وجود خود باطن خدا تھا اور خدا طاہر بندہ"(شمائم امدادیہ ص38)
حاجی امداد اللہ نے کہا:
"اکثر لوگ توحید وجودی میں غلطی کرکے گمراہ ہوجاتے ہیں تمثیل بیان فرمائی کہ کسی گرو کا ایک چیلہ توحید وجودی میں مستغرق تھا راستہ میں ایک فیل مست ملا اسپر فیلبان پکارتا آتاتھا کہ یہ ہاتھی مست ہے میرے قابو میں نہیں ہے۔اس(چیلہ کو) لوگوں نے بہت منع کیا۔مگر اس نے نہ مانا اور کہا وہی تو ہے اور میں بھی وہی ہوں خداکو خدا سے کیا ڈر۔آخر ہاتھی نے اسے مارڈالا۔جب اس کے گرُو نے یہ حال سنا گالی دیکر کہا کہ ہاتھی جو مظہر مضل تھا۔اس کوتو دیکھا اور فیلبان کو کہ مظہر ہادی تھا نہ دیکھا ہادی ومضل اوپر نیچے جمع تھے۔ع
گرفرق مراتب نہ کنی زندیقی۔"(شمائم امدادیہ ص90 امداد المشتاق ص 126 فقرہ 318 دوسرا نسخہ ص 132)
اس قصے سے پانچ باتیں ظاہر ہیں:
1۔گُروہ کا چیلہ اپنے آپ کو اور ہاتھی کو خدا سمجھتا اور کہتا تھا۔
2۔گُرو کےنزدیک ہاتھی مظہر مضل اور فیلبان (ہاتھی چلانے والا) مظہر بادی تھا۔
3۔صوفیاء کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے بقول اُن کے خیر مظہر ہادی اور بقول اُن کے شر مظہر مضل ہے ،جیسا کہ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے۔
4۔گُرو اور حاجی امداداللہ دونوں نے چیلے کے اس عقیدے"خدا کو خدا سے کیا ڈر؟"کی تردید نہیں کی بلکہ لوگوں کو سمجھایا کہ ہاتھی پر فیلبان بھی خدا(مظہر ہادی)تھا،لہذا چیلے کو اوپر والے خدا کی بات ماننا چاہیے تھی اور نہ ماننے کی وجہ سے وہ مارا گیا۔
5۔صوفیاء وحدت الوجود کے عقیدے کو دل وجان سے صحیح سمجھتے ہیں۔
یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے لیکن اختصار کی وجہ سے صوفیائی عقیدہ وحدت الوجود کا ایک واقعہ بیان کرکے اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔
رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے ایک دفعہ کہا:"ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کے لیے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا"میاں صاحب ہم نے اُس سے بتہیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اُس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں"میاں صاحب نے کہانہیں جی تم اُسے ہمارے پاس ضرور لانا چنانچہ رنڈیاں اُسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا"بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟"اُس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے"بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والاکون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے"رنڈی یہ سن کر آگ ہوگئی اور خفا ہوکر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ وگناہگار ہوں مگر ایسے پیر کے مُنہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔"میاں صاحب تو شرمندہ ہوکر سرنگوں رہ گئے اور وہ اُٹھ کر چلدی۔"(تذکرۃ الرشید ج2 ص242)
اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب کے نزدیک توحید میں غرق پیر کا یہ عقیدہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے۔معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔(نعوذباللہ)
نقل کفر کُفر نہ باشد
خود رشید احمد گنگوہی نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے لکھا:
تیرا ہی ظل ہے۔تیرا ہی وجود ہے میں کیا ہوں،کچھ نہیں ہوں۔اور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک درشرک ہے۔استغفراللہ۔۔۔"!
(مکاتیب رشیدیہ ص 10 فضائل صدقات حصہ دوم ص 556 بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 15)
مختصر یہ کہ اس قسم کے صوفیاء اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے قرآن وحدیث کے مخالف اور اہل سنت سے خارج ہیں۔
(أعاذنا الله من شرهم۔آمین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب