سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) کیا(لوگوں کے) اعمال اقرباء ورشتہ داروں پر پیش ہوتے ہیں؟

  • 21265
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1774

سوال

(12) کیا(لوگوں کے) اعمال اقرباء ورشتہ داروں پر پیش ہوتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے:

مولانا عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ کی ایک کتاب منھاج الخطیب میں ایک روایت لکھی ہوئی ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"جب کوئی مومن فوت ہوتاہے تو عالم برزخ میں اس کی نیک لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور عالم برزخ میں نیک لوگ فوت ہوکرآنے والے مومن سے طرح طرح کے اہم سوال کرتے ہیں اگرچہ اس کی کیفیت صرف اللہ ہی جانتے ہیں لیکن ہمارا قرآن وحدیث پر مکمل ایمان ہے اور اسی حدیث کے آخرمیں یہ الفاظ ہیں:

"إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ"

بلاشبہ تمہارے اعمال تمہارے قریبی اور خاندان والوں پر پیش کیے جاتے ہیں اگر اعمال اچھے ہوں تو وہ راضی اور خوش ہوتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں:اے اللہ! یہ تیرا فضل اورتیری رحمت ہے۔ہمارے اس نیکی کرنے والے پیارے پر اپنی نعمت کو مکمل فرما اور اسی پر اس کو موت دے اور اسی طرح آخرت والوں پر بُرائی کرنے والے کا عمل بھی پیش کیاجاتا ہے۔وہ دعا کرتے ہیں:اے اللہ! اس کو ایسے نیک عمل کی توفیق عطا فرما جو  تیری خوشنودی اور قرب کاباعث ہو۔(منھاج الخطیب ص434۔435،دار القدس خطبہ نمبر 19 موضوع فوت شدہ  پیاروں کے حقوق کتاب الزہد امام عبداللہ بن مبارک 149۔443 المعجم الکبیر،امام طبرانی 4/154/3889 شرح الصدور امام سیوطی سلسلۃ الاحادیث صحیحہ :2758 امام البانی)

اس روایت کےبارے میں وضاحت فرمائیں کہ یہ روایت سندا کیسی ہے؟جزاکم اللہ خیرا اس روایت کی تحقیق کو ماہنامہ الحدیث  میں شائع کیا جائے۔والسلام(ابوابراہیم خرم ارشاد محمدی۔دولت نگر،گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس روایت کے الفاظ لکھے ہیں،اسے طبرانی(المعجم الکبیر 4/129ح3887 المعجم الاوسط 1/130۔131ح 148 مسند الشامیین 2/383 ح1544 4/371 ح 3584 اورعبدالغنی المقدسی(السنن 198/1،من طریق الطبرانی قال الالبانی الضعیفہ 2/254ح864) نے مسلمہ بن علی کی سند سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔

حافظ ہشیمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اس میں مسلمہ بن علی ضعیف ہے۔(مجمع الزوائد 2/327)

شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اور وہ(مسلمہ بن علی) مہتم ہے۔الخ(الضعیفہ 2/255)

اس سند کے دوسرے راوی عبدالرحمان بن سلامہ کے بارے میں البانی صاحب نے فرمایا:مجھے اس کے حالات نہیں ملے۔(الصحیحہ 6/605 ح2758)

اس روایت کے بارے میں شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  کا درج ذیل فیصلہ ہے:

"ضعيف جدا""سخت ضعیف ہے"(الضعیفہ 2/254ح864)

امام عبداللہ بن المبارک  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب الزہد(ح443) وغیرہ میں اس مفہوم کی ایک موقوف روایت سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے درج ذیل سند کے ساتھ مروی ہے:

"عن ثور بن يزيد عن أبي رهم السَّمَعِيّ عن أبي أيوب الأنصاري"

اس موقوف(یعنی غیر مرفوع) روایت کے بارے میں البانی  رحمۃ اللہ علیہ  صاحب نے لکھا ہے: "قلت: وإسناده موقوف صحيح"میں نے کہا:موقوف کی سند صحیح ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 6/604ح2758)

حالانکہ اسی سند کے بارے میں اسی کتاب کی اسی جلد میں البانی صاحب نے خود لکھا ہے:

ﻗﻠﺖ: ﻭﺭﺟﺎﻟﻪ ﺛﻘﺎﺕ ﻟﻜﻨﻪ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﺑﻴﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻭﺃﺑﻲ ﺭﻫﻢ...."

میں نے کہا:اور اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن یہ ثوربن یزید اور ابورہم کے درمیان منقطع ہے۔(الصحیحہ 6/264ح2628)

یعنی ثوربن یزید کی ابورہم  رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات نہیں ،لہذا عرض ہے کہ منقطع سند کو کس طرح سند صحیح کہا جاسکتا ہے؟!

موقوف سند تو خودشیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے اپنے قلم سے منقطع یعنی ضعیف ثابت ہوئی اور اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔مثلاً:

1۔سلام الطویل متروک کی روایت۔

2۔معاویہ بن یحیٰ ضعیف کی روایت۔

3۔حسن بصری کی طرف منسوب مرسل روایت۔وغیرذلک

خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ آپ کی مسئولہ روایت ضعیف ومردود ہے اور عین ممکن ہے کہ محترم عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ کو اس کی تحقیق کا موقع نہ مل سکا ہو،لہذاانھوں نے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب:منہاج الخطیب میں درج فرمادیا۔واللہ اعلم۔

تنبیہ:۔

اس باب میں مسند البزار(البحرالز خار 17/154۔155ح9760 کشف الاستار 1/413۔414 ح874)والی روایت حسن لذاتہ ہے اور شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ ( 6/262۔263ح 2628) نے بھی اسے صحیحہ میں ذکر کیا ہے۔

اس حدیث کا  ترجمہ ابومیمون محمد محفوظ اعوان صاحب کے قلم سے پیش خدمت ہے:

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب مومن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے تو وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کرکے یہ پسند کرتا ہے کہ اب اس کی روح نکل جائے(تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرسکے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کوپسند کرتے ہیں۔مومن کی روح آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور(فوت شدگان) مومنوں کی ارواح کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ وہ  اس سے اپنے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں دریافت کرتی ہیں۔جب وہ روح جواب دیتی ہے کہ فلاں تو ابھی دنیا میں ہی تھا(یعنی ابھی تک فوت نہیں ہوا تھا) تو وہ خوش ہوتی ہے اور جب وہ جواب دیتی ہے کہ(جس آدمی کے بارے میں تم پوچھ رہی ہو) وہ تو مرچکاہے تو وہ کہتی ہیں:اسے ہمارے پاس نہیں لایا گیا(اس کا مطلب یہ ہواکہ اسے جہنم میں لے جایا گیا ہے)۔مومن کو قبر میں بٹھادیا جاتاہے اور اس سے سوال کیاجاتا ہے  کہ تیرا رب کون ہے؟وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے۔پھر کہا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟وہ جواب دیتا ہے:میرے نبی کریم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔پھر سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے :میرا دین اسلام ہے۔

(ان سوالات وجوابات کے بعد) اس کی قبر میں ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔وہ اپنی قبر کی طرف دیکھتا ہے ،پھر گویا کہ نیند طاری ہوجاتی ہے۔

جب اللہ کے دشمن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے اور مختلف حقائق کامشاہدہ کرتا ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے(تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے بچ جائے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔جب اسے قبر میں بٹھادیا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ تیرارب کون ہے؟وہ جواب دیتا ہے میں نہیں جانتا۔اسے کہاجاتا ہے :تو نے جانا ہی نہیں۔پھر(اس کی قبر میں) جہنم سے دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے کہ جن وانس کے علاوہ ہر چوپایہ اس کو سنتا ہے،پھر اسے کہا جاتا ہے کہ"منہوش" کی نیند سوجا۔میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا:منہوش سے کیا مرادہے؟انھوں نے کہا:منہوش سے مراد وہ آدمی ہے جسے کیڑے مکوڑے اور سانپ ڈستے اور نوچتے رہتے ہیں۔پھر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے۔"(اردو سلسلۃ احادیث صحیحہ 3/216۔217 ح1713)

اس حدیث سے ثابت ہواکہ مرنے کے بعد(رشتہ دار ہو یاقریبی) روحوں کی تازہ مرنے والے کی روح سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک دوسرے کےحالات معلوم کیے جاتے ہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ"

"روحیں لشکروں اور گروہوں کی حالت میں(اکٹھی) رہتی ہیں یا رہتی تھیں،پس جس کا ایک دوسرے سے تعارف تھا تو اُن کی آپس میں محبت ہوتی ہے اور جو ایک دوسرے سے اجنبی تھیں تووہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتی ہیں۔"(صحیح بخاری :3336صحیح مسلم2638)

امام محمد بن المنکدر  رحمۃ اللہ علیہ ( ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ میں جابر بن عبداللہ(الانصاری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس گیا اور وہ وفات کے قریب تھے تو میں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا۔(سنن ابن ماجہ 1450 مسند احمد 4/391 ح19482 موسوعۃ حدیثیہ 32/228 وسندہ صحیح)

سیدنا  خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خواب میں دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشانی پر سجدہ کررہے ہیں،پھر)(انھوں نے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا،آپ نے فرمایا:

"إِنَّ الرَّوْحَ تَلْقَى الرَّوْحَ " "روح کی روح سے ملاقات ہوتی ہے"

(السنن الکبریٰ للنسائی 4/384ح731 ،مسند احمد موسوعۃ حدیثیہ 36۔201)

مسند احمد (5/214،215) کی مشہور روایت اور طبقات ابن سعد(4/381) میں یہی روایت : "إِنَّ الرَّوْحَ لَا تَلْقَى الرَّوْحَ ""روح کی روح سے ملاقات نہیں ہوتی" کےالفاظ سے ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ(11/78ح30506) میں""إِنَّ الرَّوْحَ لَا تَلْقَى الرَّوْحَ"یا"الروح يلقي الروح" کے الفاظ سے لکھی ہوئی ہے لیکن مسند ابن ابی شیبہ(1/37ح18) میں " لتَلْقَى الرَّوْحَ "یا  تَلْقَى الرَّوْحَ " یعنی اثبات کے ساتھ نقل کیا ہے۔(دیکھئے المنتخب 1:219ح216)

نفی اور اثبات کے اس ٹکراؤ کیوجہ سے یہ رویت مضطرب یعنی ضعیف ہے۔احادیث صحیحہ اور غیر مضطربہ کی رُو سے یہی ثابت ہے کہ مرنے کے بعد روحوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے،لیکن یہ الفاظ:

"إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ..."

"بلاشبہ تمہارے اعمال تمہارے قریبی اور خاندان والوں پر پیش کیے جاتے ہیں...الخ

ثابت نہیں بلکہ ضعیف ومردود ہیں۔

(18 /شوال 1433ھ بمطابق 16/ستمبر 2012ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ56

محدث فتویٰ

تبصرے