سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) کیا انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں نمازیں پڑھتے ہیں؟

  • 21256
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1190

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیدنا انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:انبیاء علیہ السلام  اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟مدلل بیان کریں۔

کیا اس روایت کو بیہقی،سبکی،ابن حجر عسقلانی ،ہشیمی اور سیوطی وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے۔(قاری محمد اسماعیل سلفی ،جھنگ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت: " الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون "

مسند ابی یعلیٰ الموصلی(6/147 ح 3425)اور حیاۃ الانبیاء علیہ السلام  للبیہقی(ح2من طریق ابی یعلیٰ) میں درج ذیل سند کے ساتھ موجووہے:

"عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ"

اس سند میں حجاج راوی غیر منسوب ہے ،اس کی ولدیت یانسب معلوم نہیں اور حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا"

"نكرة : ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد ، فأتى بخبر منكر ، عنه....."

مجہول ہے میرے علم کے مطابق مستلم بن سعید کے علاوہ کسی نے اس سے روایت نہیں کی ،پس وہ(مستلم) اس سے منکر خبرلایا ہے۔(میزان الاعتدال 4601 ت1727 وقال الذہبی حجاج بن الاسود وھو خطا من الذہبی والصواب حجاج من غیر ابن اسود)

اگر کوئی آدمی حافظ ابن حجر کے حوالے سے کہ کہ حجاج سے مراد حجاج بن ابی زیاد الاسود البصری ہے تو عرض ہے کہ یہ تعین کئی وجہ سے غلط ہے:

1۔حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  جو کہ بقول ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ :

"من اهل الاستقراء التام في نقد الرجال" تھے۔(نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر مع شرح الملاعلی قاری ص736)

وہ حجاج بن ابی زیاد الاسود القسملی کو اچھی  طرح پہچانتے تھے ،جیسا کہ انھوں نے خود  فرمایا:

"بصري صدوق.......وكان من الصلحاء وثقه ابن معين مات سنة بضع وأربعين ومئة"(سير اعلام النبلاء767)

معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک حجاج دو ہیں:

اول: ابن ابی زیاد والا سودزق العسل ،صدوق۔

دوم:نامعلوم مجہول۔

2۔مستلم بن سعید سے اس روایت کی کسی صحیح سند میں حجاج کے بعد"بن الاسود" کی صراحت ثابت نہیں اور حسن بن قتیبہ المدائنی(متروک مجروح ،ضعفہ الجمہور) کی جس روایت میں یہ صراحت آئی ہے وہ مردود وباطل ہے۔

حسن بن قتیبہ متروک وھالک کی روایت مسند البزار ،الفوائد لتمام الرازی،الکامل لابن عدی،حیاۃ الانبیاء علیہ السلام  للبیہقی اور تاریخ دمشق لابن عساکر میں موجود ہے۔(دیکھئے الصحیحہ للبانی 2،187 ح621)

اگر کوئی کہے کہ تہذیب الکمال میں مستلم بن سعید کے شیوخ میں حجاج بن ابی زیاد الاسود کا ذکر کیا گیا ہے ،تو عرض ہے کہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کے اختلاف مذکور کے بعد یہ ذکر کرنا قابل حجت ہے۔جولوگ حجاج(مجہول) کو ضرور بالضرور ابن الاسود ثابت کرنے پر بضد ہیں،انھیں چاہیے کہ اس کاثبوت صحیح سند سے پیش کریں۔

فائدہ:۔

 المستلم بن سعيد، عن الحجاج، عن ثابت ، والی روایت اخبار اصفہان لابی نعیم الاصبہانی(2/83) میں موجود ہے،لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور الفاظ درج ذیل ہیں:

" الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون "

یعنی اس میں "احیاء" کا لفظ ہی نہیں ہے ۔

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ عجیب وغریب روایت بلحاظ سند صحیح نہیں،لہذامحمد عباس رضوی بریلوی کااپنی کتاب"واللہ آپ زندہ ہیں"میں اوراق کے اوراق لکھنا چنداں مفید نہیں ہے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کا اس روایت کو صحیح کہنا ان کی کتاب سے ثابت نہیں اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کی نقل منقطع وبے سندہے۔خود حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  سے اس روایت کو صحیح قرار دینا ثابت نہیں اور سبکی کا ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کے مقابلے میں کوئی مقام نہیں ہے۔

ہثیمی کا اس روایت کے راویوں کو ثقہ قراردینا حجاج مجہول کی وجہ سے غلط ہے اور سیوطی متاخرین میں سے تھے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت اصول حدیث واسماء الرجال کی وجہ سے صحیح نہیں اور اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ومردود ہیں۔

اس باب میں صرف صحیح مسلم کی وہ حدیث ثابت ہے جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (معراج کی رات) موسیٰ  علیہ السلام  کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔

یہ خاص معجزہ ہے اور اس سے عام استدلال محل نظر ہے۔واللہ اعلم۔

انبیائے کرام علیہ السلام  کی برزخی زندگی(حیاۃ الانبیاء علیہ السلام) کے لیے دیکھئے میری کتاب تحقیقی مقالات(ج1ص19۔26)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ18

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ